تحریک انصاف کو دوبارہ عوامی پذیرائی ملنا ناممکن کیوں؟

سینئر صحافی طلعت حسین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی فائنل کال کی ناکامی سے اس دفعہ ورکر کی سطح پر بہت ڈیمیج ہوا ہے جبکہ یہ بھی ایکسپوز ہوگیا ہے کہ پی ٹی آئی پنجاب سے لوگ نہیں نکال سکتی۔ ساؤتھ پنجاب تو بہت دور ہے۔ تحریک انصاف پنڈی اور اسلام آباد سے بھی عوام کو سڑکوں پر لانے میں یکسر ناکام رہی ہے۔ طلعت حسین کے مطابق احتجاج کی فائنل کال میں نیشنل موبلائزیشن نہ ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف کو نہ صرف اندرونی طور پر بڑا دھچکہ لگا بلکہ ورکرز کا اعتماد بھی کم ہوا ہے اور پی ٹی آئی کا تنظیمی ڈھانچہ ڈگمگا گیا ہے، تاہم حکومت کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ پی ٹی آئی کا دھرنا ناکام ہوا ہے تاہم غصہ کم نہیں ہوا ہے۔ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے طلعت حسین کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران حکومت کی طرف سے مس ہینڈلنگ ہوئی جبکہ احتجاج کی ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی میں عمران خان نے کسی شخص کو اوپر نہیں آنے دیا اس لئے پارٹی میں کوئی لیڈر شپ نہیں بن سکی۔ احتجاج کے دوران بھی قیادت کا فقدان نظر آیا  ،طلعت حسین کے مطابق یہ سب جانتے تھے کہ عمران خان نے احتجاجی دھرنے یا مارچ سے ریلیز نہیں ہونا نہ ہی احتجاج سے عدالتی فیصلے بدلیں گے۔ تاہم ان کاخیال تھا کہ بشریٰ بی پارٹی ورکرز کو دوبارہ سرگرم کر دینگی اور پارٹی میں ایک بار پھر جان پڑ جائے گی تاہم پی ٹی آئی رہنماؤں کے خیالات کھوکھلے مفروضے ہی نکلے۔

طلعت حسین کے مطابق پی ٹی آئی قیادت کو شاید بہت عرصہ پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ آپ کو راستے میں کوئی تکلیف نہیں دی جائے گی لیکن آپ ڈی چوک پہنچ کر واپس چلے جائیں گے۔ تاہم پی ٹی آئی قیادت اپنی یقین دہانیوں سے مکر گئی اور پی ٹی آئی نے ڈی چوک پر دھرنا دینے کا اعلان کر دیا طلعت حسین کے مطابق پی ٹی آئی کا بشریٰ بی بی کو ساتھ لانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ایک خاتون جب ٹرک پر کھڑی ہوں تو ان کی وجہ سے بہت سی شیلنگ وغیرہ نیوٹرلائز ہوجاتی ہے۔ جبکہ حکومت کے پی ٹی آئی کے احتجاجی مارچ کو روکنے میں ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بشریٰ بی بی ان کے ساتھ تھیں۔

طلعت حسین کے بقول پی ٹی آئی قیادت میں سے چاہے وہ بشریٰ بی بی ہوں یا علی امین گنڈاپور، کوئی بھی ڈی چوک سے آگے نہیں جانا چاہتا تھا یہاں تک کہ وہ ڈی چوک کے قریب بھی نہیں آنا چاہتا تھا تاہم جب انہوں نے دیکھا کہ ساڑھے تین سو لوگ پہلے ہی ڈی چوک پہنچ گئے ہیں تو ان کے لیے ڈی چوک آنے سے انکار ممکن نہیں تھا۔  طلعت حسین کے مطابق میرا ماننا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت کو سب سے زیادہ خطرہ اپنے پارٹی ورکرز سے تھا کیونکہ وہ اپنے ورکر کو کہہ کر لائے تھے کہ ڈی چوک آنا ہے۔ پارٹی رہنما ورکرز کے ہجوم کےساتھ سنگجانی پر نہیں رک سکتے تھے کیونکہ اگر پارٹی رہنما رکنے کا فیصلہ بھی کرتے تو لوگوں نے ان کی گاڑی کو پکڑ کر یہاں لے آنا تھا۔

طلعت حسین کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان بھی ڈی چوک پہنچنے کی تاریخ نہیں رکھتے۔ میرا ماننا یہ ہے کہ عمران خان نے اگر ڈی چوک پہنچنے کا کہا بھی تھا تو بھی انھیں معلوم تھا کہ انھیں سنگجانی ہی رکنا پڑے گا۔ اسی لئے وہ اس پر راضی بھی ہو گئے تھے تاہم بشری بی بی نے عین وقت پر تمام معاملات بگاڑ دئیے۔ جس کی وجہ سے اب پارٹی انتشار کا شکار ہو چکی ہے۔

بعض دیگر مبصرین کے مطابق عمران خان کی عدم موجودگی کے دوران پی ٹی آئی اس وقت جس داخلی انتشار اور اختلاف کا شکار ہے، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اس پی ٹی آئی اختلافات کے دائرہ در دائرہ کا منظر پیش کر رہی ہے۔ ایک طرف ’وکلا‘ پر الزام ہے کہ وہ ’سیاسی لوگوں‘ پر حاوی ہیں، تو دوسری طرف خیبرپختونخوا اور پنجاب کی قیادت کسی نقطہ پر متفق نظر نہیں آتی۔ پھر خیبرپختونخوا میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اور ان کے مخالفین الگ نظارہ پیش کر رہے ہیں تو اس بیچ ’بھابھی اور نندوں‘ میں گھریلو چپقلش پارٹی تک در آئی ہے، اور اس پر مستزاد ’غیرسیاسی‘ بشریٰ بی بی اچانک ’مولاجٹ‘ کا روپ دھار چکی ہیں۔ اس قدر انتشار میں ’فائنل کال‘ کی ہزیمت آمیز ناکامی نے جو گل کھلائے ہیں اس نے اس سوال کو جنم دیا ہے کہ کیا ’فائنل کال‘ کی ناکامی کے ذمہ داروں کو جواب دہ ٹھہرایا جائیگا؟۔

اس حوالے سے امریکی میڈیا میں شائع رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی ماضی قریب میں 3 بار اسلام آباد، 2 بار لاہور، صوابی، مردان، تمام ضلعی ہیڈ کوارٹرز اور پورے ملک میں 3 مرتبہ احتجاج کی کال دے چکی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ان تمام احتجاجوں میں ایک بات قدرے مشترک پائی گئی ہے کہ ماسوائے 2-3 چہروں کے پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کسی بھی جلسے یا احتجاج میں نظر نہیں آئی۔ جس کے باعث جماعت کے کارکنوں میں غم و غصہ بھی پایا جاتا ہے۔تاہم فائنل کال کی ناکامی بارے پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو مذاکرات کی طرف جانا چاہیے اور اگر وہ مذاکرات نہ بھی کریں تو کم از کم ایوان کے اندر اپنی پوری موجودگی کا احساس دلائیں اور تمام کارروائیوں میں پوری طرح شرکت کریں۔

Back to top button