پنجاب کے عوام نے پی ٹی آئی قیادت کو دن میں تارے کیسے دکھائے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے اسلام اباد احتجاج کی ناکامی نے پی ٹی آئی کے ووٹرز اور ورکرز کا پارٹی قیادت پر اعتماد متزلزل کر دیا ہے جسکے بعد عمران خان کو اپنی سیاسی حکمت عملی پر نظرثانی کرنا ہو گی اور پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ بھی فعال کرنا یو گا۔

انگلش روزنامہ دی نیوز کے ادارتی صفحے پر شائع اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائج کہتے ہیں اپنے مسلسل ناکامیوں، تنظیم کے فقدان اور مقامی قیادت کی احتجاج میں عدم شرکت کی وجہ سے پارٹی کارکن مایوس ہو رہے ہیں۔ لہازا اگر اس مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو عمران خان اور پی ٹی آئی کو مستقبل میں بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف نے 9 مئی 2023 اور 26 نومبر 2024 کو جتھوں کے ذریعے حملہ اور ہو کر دو بڑی غلطیاں کیں جن کا پارٹی کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان یوا یے، لیکن اس کے باوجود پنجاب اور خیبر پختونخوا کے عوام کی اکثریت اب بھی عمران خان کی حمایتی ہے۔

انکا کہنا یے کہ پارٹی کی احتجاجی سیاست کی بار بار ناکامی نے پی ٹی آئی کے ووٹرز اور ورکرز کے اپنے لیڈر کی حکمت عملی پر اعتماد کو ہلا تو دیا ہے لیکن وہ مشکل وقت میں بھی اپنے لیڈر کے ساتھ کھڑے ہیں، تاہم اگر عمران خان نے اپنی حکمت عملی تبدیل نہ کی تو پارٹی ورکرز بھی زیادہ عرصہ ان کے ساتھ کھڑے نہیں رہ پائیں گے اور وہ وقت بھی آ سکتا ہے جب عمران تنہا ہو جائیں گے۔

سینئیر صحافی کے بقول پی ٹی آئی اب بھی کافی مقبول ہے، لیکن اس میں تنظیم اور پارٹی نظم و ضبط کا شدید فقدان ہے۔ اگرچہ عمران خان کے ووٹر، خاص طور پر پنجاب میں، ان سے ہمدردی رکھتے ہیں، لیکن ان میں قربانی دینے یا عمران کی قید کیخلاف عوامی احتجاج کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی فائنل احتجاج کی کال کے باوجود اسلام اباد پہنچنے والوں میں پنجاب کی قیادت اور ورکرز نظر نہیں آئے۔

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے زیادہ تر ووٹرز مڈل کلاس دائیں بازو کے لوگ ہیں، جو مسلم لیگ (ن) کے ووٹرز کی طرح عمران کے وفادار ہیں، لیکن وہ بہت ذیادہ محتاط ہیں۔ پی ٹی آئی کے پنجابی ووٹرز نہ تو اپنے نظریات کے لیے اور نہ ہی اپنی پارٹی یا لیڈر کے لیے خطرہ مول لیتے ہیں۔ اسکے علاوہ پنجاب میں پارٹی کا کوئی واضح ڈھانچہ بھی موجود نہیں ہے۔ کچھ لوگ اسے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خوف یا دباؤ سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی اسلام آباد لانگ مارچ کے لیے آخری کال پر لاہور یا پنجاب کے کسی بڑے شہر میں کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا۔

انکا کہنا یے کہ لاہور ہمیشہ پنجاب کے لوگوں کی امنگوں کی علامت رہا ہے۔ تاریخی طور پر، تمام بڑی سیاسی یا مذہبی تحریکیں لاہور سے شروع ہوئی ہیں۔ اس لیے یہ حیران کن تھا کہ ایک اہم سیاسی موڑ پر، جب خیبر پختونخوا کا سیاسی درجہ حرارت عروج پر تھا، عمران کے شہر لاہور میں مکمل خاموشی چھائی رہی۔ یہ خاموشی کچھ لوگوں کے لیے پنجاب کے عوام کی پی ٹی آئی سے جذباتی علیحدگی کی عکاسی کر سکتی ہے، کچھ لوگ اسے پنجاب کے لوگوں کی بے وفائی سمجھتے ہیں، جبکہ دوسروں کے نزدیک یہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جابرانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ تاہم، یہ رویہ دراصل پارٹی میں نظم و ضبط اور تنظیم کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔

سہیل وڑائج کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کئی سالوں سے پنجاب میں مؤثر قیادت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ عثمان بزدار جیسے لوگ پنجاب میں خان کی نمائندگی کرتے رہے، جو کوئی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔ پنجاب پی ٹی آئی کے صدر حماد اظہر 9 مئی 2023 کے واقعے کے بعد سے منظر عام سے غائب ہیں، اسی طرح میاں اسلم اقبال بھی گرفتاری کے ڈر سے مفرور ہیں۔ پارٹی میں دوسری یا تیسری درجے کی قیادت بھی موجود نہیں۔ ضلعی اور تحصیل سطح کی تنظیمیں یا تو سرے سے موجود نہیں یا مکمل طور پر غیر منظم ہیں۔

سہیل وڑائج کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو ماضی کی پیپلز پارٹی جیسے مضبوط تنظیم اور ڈھانچے کی ضرورت ہے۔ 70 کی دہائی میں جب پیپلز پارٹی عروج پر تھی، پنجاب کے دور دراز دیہات میں بھی اس کا تنظیمی ڈھانچہ موجود تھا۔ یہی ڈھانچہ اسے جنرل ضیاء کی مارشل لا کے خلاف احتجاج منظم کرنے میں مدد دیتا رہا۔ لیکن پی ٹی آئی نے کبھی بھی اس طرح کا تنظیمی ڈھانچہ قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہی کمی اسے ایک مضبوط، مخالف اسٹیبلشمنٹ جماعت بننے سے روکتی ہے۔ اس کے برعکس، پی ٹی آئی ایک عوامی جماعت ہے جو اپنے لیڈر کو اقتدار کی راہداریوں تک پہنچا سکتی ہے، لیکن اس سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف گلیوں میں لڑائی کی توقع کرنا غیر حقیقی ہوگا۔

سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے مارچ نے سماجی طبقوں کے درمیان سیاسی تقسیم کو واضح کیا ہے۔ متوسط طبقہ اور کارپوریٹ طبقہ اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند رہا، جبکہ کاروباری طبقہ خاموش رہا۔ سٹاک مارکیٹ کے ریکارڈ توڑ بلش رجحانات نے ظاہر کیا کہ کاروباری طبقہ موجودہ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے ساتھ ہے اور پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست کو سنجیدہ نہیں لیتا۔ انکا کہنا یے کہ عمران کو پنجاب میں اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنی ہوگی کیونکہ احتجاجی کالز کی مسلسل ناکامیوں، تنظیم کی کمی اور مقامی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے پارٹی کارکن مایوس ہو رہے ہیں۔ اگر اس مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو پی ٹی آئی کا سیاسی مستقبل تاریک ہونے کا خدشہ ہے۔

Back to top button