گرفتاریوتھیوں نے پی ٹی آئی قیادت کو عوام کے سامنےننگا کیوں کیا؟
پی ٹی آئی قیادت کے بہکاوے میں آ کر اسلام آباد میں انتشار پھیلاتے ہوئے گرفتار ہونے والے یوتھیوں کی چیخیں اب آسمان کو چھوتی سنائی دے رہی ہیں۔ زیر حراست پی ٹی آئی ورکرز جہاں پارٹی رہنماؤں کی سیاہ کاریوں بارے انکشافات کر رہے ہیں وہیں گرفتار شرپسند پنکی پیرنی اور گنڈا پور کو بددعائیں دیتے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔
روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق گرفتار پی ٹی آئی ورکرز کی ایک بڑی تعداد نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ انہیں پیسے دے کر احتجاج کیلئے لایا گیا تھا جبکہ قافلے کے ساتھ چلنے والی گاڑیوں میں اسلحہ، پتھر، غلیلیں اور آنسو گیس کے شیل تھے۔ اب تک گرفتار کیے گئے سینکڑوں شرپسندوں کے ویڈیو بیانات ریکارڈ کیے جانے کے ساتھ ان کی بائیو میٹرک بھی کرالی گئی ہے۔
تفتیش کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ ان شرپسندوں میں بڑی تعداد دیہاڑی داروں کی تھی، جنہیں پیسوں کے عوض لایا گیا۔ جبکہ پی ٹی آئی کے احتجاج میں شریک ایک بڑی تعداد جرائم پیشہ افراد کی بھی تھی، جنہیں پولیس اور رینجرز پر حملوں کی ڈیوٹی دی گئی تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان نوجوان کارکنوں اور دیہاڑی دار شرپسندوں کو احتجاجی مارچ کا حصہ بنانے کے لئے بشریٰ کی ہدایت پر ان کی ذہن سازی کی گئی تھی۔
اس سلسلے میں انہیں خصوصی طور پر تیار ڈاکومنٹری دکھائی جاتی رہی۔ اکثریت کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا۔ بشریٰ بی بی اور گنڈاپور کے حکم پر جو ایم این اے اور ایم پی ایز انہیں لے کر آئے تھے، وہ سب بھاگ گئے اور انہیں چھوڑ گئے۔ گرفتار ہونے کے بعد سے اب تک کسی رہنما نے پلٹ کر نہیں دیکھا ہے۔ ہمارے گھر والے پریشان ہیں کہ ہمارا کیا بنے گا‘‘۔ بہت سے گرفتار شدگان بشریٰ اور گنڈا پور کو بددعائیں دے رہے ہیں۔ گرفتار شدگان میں زیادہ تر کا تعلق سوات، اپر دیر، لوئر دیر، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، باجوڑ، ہنگو، پشاور اور ایبٹ آباد سے ہے جبکہ گرفتار شدگان میں متعدد افغانی بھی شامل ہیں۔
تفتیشی ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کارکنوں کو پرجوش بنانے کے لئے احتجاجی مارچ سے پہلے کئی روز تک ان کی ذہن سازی کی جاتی رہی۔ اس سلسلے میں مختلف مقامات پر مجمع اکٹھا کرکے خصوصی طور پر تیار ایک ڈاکومنٹری دکھائی جاتی تھی۔ اس ڈاکومنٹری کے ذریعے ان نوجوانوں کو پیغام دیا جاتا تھا کہ چوبیس نومبر کی فائنل کال ’’حق و باطل‘‘ کا آخری معرکہ ہے۔ جس میں حصہ لینا ’’عین ثواب‘‘ ہے۔
ساتھ ہی نوجوانوں کو سبز باغ دکھانے کے لئے ڈاکومنٹری میں کہا جاتا تھا کہ ’’تم لوگ بھی ’’محنت‘‘ اور ’’قربانیاں‘‘ دے کر مراد سعید اور شاہد خٹک بن سکتے ہو۔ پی ٹی آئی زرائع کے مطابق تمام تر ذہن سازی کھ باوجود پی ٹی آئی کے کارکنوں کی اکثریت اس فساد کا حصہ بننے سے انکاری رہی۔ کیونکہ نو مئی کے گرفتار کارکنوں کی مثال ان کے سامنے تھی، جو آج تک جیلیں کاٹ رہے ہیں۔ ان کے مستقبل تباہ ہوگئے اور گھر والوں کا سکون لٹ گیا۔ لیکن پارٹی اپنی اندرونی لڑائیوں اور رسہ کشی میں الجھی ہوئی ہے۔ پارٹی کے سارے نام ور وکلا کی توجہ عمران خان اور ان کی اہلیہ کے مقدمات لڑنے پر ہے اور گرفتار کارکنوں کے پاس عام وکیل کرنے کے پیسے بھی نہیں۔
اس صورتحال میں جب متعلقہ ایم این ایز اور ایم پی ایز نے دیکھا کہ بشریٰ بی بی کا ہدف کے مطابق پانچ فیصد کارکنان بھی لے جانا مشکل ہے تو ڈاکومنٹری کے ذریعے ذہن سازی کا فیصلہ کیا گیا اور ساتھ ہی دیہاڑی داروں کا بندوبست کیا۔ ان میں تندور پر کام کرنے والے اور مزدوری کرنے والے سب شامل ہیں۔ انہیں چار چار، پانچ پانچ ہزار روپے کے عوض مارچ کا حصہ بنایا گیا۔ بعض کو پچاس، پچاس ہزار روپے بھی دیئے گئے۔ کسی کو نیا موبائل خرید کر دینے کا وعدہ کیا گیا۔ جو اب بے یارومددگار جیلوں میں چیختے چلاتے ہوئے پی ٹی آئی قیادت کو بددعائیں دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ایک پرویز خان نامی شرپسند نے روتے ہوئے کہا ’’بشریٰ اور گنڈا پور نے غریبوں کو قتل کروایا‘‘۔ عمران نامی شرپسند نے انکشاف کیا کہ اس کی ڈیوٹی تھی کہ تیس سے پینتیس افغانیوں کو کلاشنکوف دوں۔ ایک شرپسند نے کہا کہ پارٹی جادوگرنی کے کنٹرول میں چلی گئی ہے۔ جس طرح انہوں نے ہمارے ساتھ کیا، اللہ تعالیٰ انہیں غرق اور برباد کرے۔ ایک گرفتار ہونے والے نے بتایا کہ اسے پچاس ہزار روپے دیئے گئے تھے کہ اپنے ساتھ دوستوں کو بھی لائو۔ ایک ایاز نامی نوجوان نے بتایا ’’میں علی خان جدون کے ساتھ آیا تھا۔ وہ خود بھاگ گیا اور ہمیں پھنسا گیا‘‘۔
مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کے احتجاجی مارچ کا سب سے المناک اور دردناک پہلو یہ ہے کہ عمران اور بشریٰ سے لے کر گنڈاپور سمیت پارٹی کی مرکزی قیادت میں سے کسی کی اولاد یا گھر والے اس احتجاج میں شامل نہیں تھے۔ ان لوگوں نے غریبوں کے بچوں کو ایندھن بنایا۔ پنکی پیرنی کی دبئی میں مقیم بہن مریم وٹو نے ایک ٹی وی پروگرام میں ڈھٹائی کے ساتھ اعتراف کیا کہ اس نے بشریٰ سے کہا تھا، وہ خود اور گھر کے دیگر افراد کو بھی احتجاج میں شرکت کے لئے لانا چاہتی ہے۔ لیکن بشریٰ نے یہ کہہ کر روک دیا کہ میں تمہاری زندگیوں کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتی۔ اس سے زیادہ سنگدلی کیا ہوسکتی ہے۔ لیکن دیوتا اور اب دیوی کے اندھے پیروکاروں کو یہ احساس گرفتار ہونے اور جیل میں جانے کے بعد ہوتا ہے۔