فیض حمید کے کورٹ مارشل کا فیصلہ فوری سنانا ضروری کیوں ہے ؟
معروف لکھاری تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی نے کہا ہے کہ جنرل فیض حمید ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خلاف بغاوت کی جو سازش کر رہا تھا اس میں عمران خان ان کا برابر کا شریک کار تھا چنانچہ اب دونوں سازشی اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ لیکن شرط صرف اتنی ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی اس کام میں دیر نہ ہو جائے، کہیں فیض کارڈ بھی ماضی کے دیگر کارڈز کی طرح ایکسپائر ہو کر غیر مؤثر نہ ہو جائے۔ یہ پاکستان کو بحران سے نکلانے کا آخری موقع ہے اور اس کو ضائع کرنا گناہ کے مترادف ہو گا۔ اگر فیض حمید کے کوٹ مارشل کا فوری فیصلہ نہ سنایا گیا تو عمران خان ایک بار پھر بچ نکلے گا اور اگر ایسا ہوا تو وہ پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیہ میں عمران خان کے سابقہ بہنوئی حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ پچھلے تین سال سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کرتا دھرتا نبٹنے میں دیر کر دیتے ہیں۔27 اکتوبر 2022ء کو لیفٹینینٹ جنرل ندیم انجم کا بطور ڈی جی آئی ایس آئی میڈیا سے براہِ راست خطاب، ملکی تاریخ کا حیران کن واقعہ تھا۔ اس روز انکی گفتگو کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ عمران خان کا سائفر بیانیہ جھوٹا ہے اور ارشد شریف کے قتل سے اسٹیبلشمنٹ کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ اور بات کہ عمران خان نے اپنے سائفر بیانیے پر خود ہی یوٹرن لے لیا اور اب ارشد شریف قتل کے حوالے سے بھی یہ خبریں سننے میں آ رہی ہیں کہ اس کے پیچھے بھی فیض حمید کا ہاتھ تھا جس کا بنیادی مقصد حکومت مخالف تحریک کو ہوا دے کر جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تعیناتی رکوانا تھا۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومتی اتحاد کی نمبرز گیم کیا ہے ؟
حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ عمران خان کو زور زبردستی سے وزیراعظم تو بنوا دیا گیا لیکن ان کا دورِ حکومت کرپشن، نااہلی اور بد انتظامی سے عبارت تھا۔ 2018 کے الیکشن میں عمران نے وعدے کرتے ہوئے زمین اور آسمان کے جو قلابے ملائے، وہ بھی وفا نہ ہوسکے۔ لیکن عمران کی کامیابی یہ رہی کہ پاکستانی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا کر جب وہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے فارغ ہوئے تو زیرو سے ہیرو بن گئے۔ انہوں نے امریکی سائفر کا جھوٹا چورن اس اعتماد کے ساتھ عوام کو بیچا کہ لوگوں نے اسٹیبلشمنٹ کو ولن سمجھنا شروع کر دیا اور یوں اسٹیبلشمنٹ کی طاقت خان کے سامنے کمزور پڑ گئی۔ عمران خان نے اقتدار سے بے دخلی کے بعد براہِ راست اسٹیبلشمنٹ کو اپنی توپوں کے دہانے پر رکھ لیا۔ جب موصوف نے جنرل باجوہ کو میر جعفر کہا تو عمران کے مخالفین میں باجوہ کا دفاع کرنیوالوں کی تعداد صفر تھی۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کی گومگو کی کیفیت میں عمران خان بذریعہ سوشل میڈیا، جلسے جلوس، ریلیاں، مارچ سائفر بیانیہ پر بھرپور تائید حاصل کرتا رہا۔ تا آنکہ ملکی سیاست کا محور اکلوتا عمران خان بن گیا۔
حفیظ اللہ خان نیازی کہتے ہیں کہ جب 27 اکتوبر 2022 کو جنرل ندیم انجم کی پریس کانفرنس میں سچ سامنے آیا تب تک عمران خان کا جھوٹ ملکی طول و عرض اور کرہ ارض کے درجنوں چکر لگا چکا تھا۔ ارشد شریف قتل کیس پر بھی ندیم انجم نے عمرانی جھوٹ کا خوب احاطہ کیا اور شہادتوں کی تفصیل دی مگر عمران اس معاملے پر پہلے ہی اپنا جھوٹا چورن بیچ کر فائدہ اٹھا چکا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ عمران نے ستمبر 2022 میں فوج پر چڑھائی اس لیے شروع کی تھی تا کہ ’’لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر‘‘ کی بطور آرمی چیف ممکنہ تعیناتی رکوائی جا سکے۔ عمران اپنے پرانے منصوبے کے تحت فیض حمید کو آرمی چیف بنوانا چاہتے تھے چنانچہ موصوف نے راولپنڈی میں GHQ پر لشکر کشی کا اعلان کر دیا۔ خان نے پہلے رائے عامہ کو اُکسایا بھڑکایا، اور ہھر جی ایچ کیو کی طرف مارچ پر آمادہ کیا۔ ان کی لائیو TV نشریات، جلسوں، انٹرویوز اعر بیانات میں ایک ہی رَٹ رہی کہ ’’جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف نہیں بننے دینا‘‘۔ حد تو یہ تھی کہ خان نے یہ بھی اعلان کر دیا کہ اس حوالے سے ان کا اعلان کردہ مارچ جہاد اکبر ہے۔ عمران خان کی سوشل میڈیا ٹیم نے بیہودگی، بے شرمی، بازاری زبان کی بھر مار کر ڈالی۔ ارشد شریف کا قتل لانگ مارچ میں جان ڈالنے کا تڑکا تھا کیونکہ جہاد کمپین کو خاطر خواہ پذیرائی نہیں مل رہی تھی۔ عمران خان نے پلک جھپکتے میں ایسا تاثر پھیلایا جیسے اس قتل میں عاصم منیر یا اسکے زیر اثر کچھ افسران ملوث تھے۔ جب تک ندیم انجم نے ارشد شریف قتل کی کچھ گتھیاں سلجھائیں، تب تک عمران اور فیض حمید منصوبے کے مطابق اس کا الزام اسٹیبلشمنٹ پر ڈال کر عوامی پذیرائی حاصل کر چکے تھے۔ بھائی لوگوں نے اس بار بھی ہمیشہ کی طرح دیر کر دی۔ کاش اپریل میں سائفر پر اور اگلے دن ارشد شریف قتل پر تفصیلات آ جاتیں تو عمران خان کا مکو ٹھپنے میں آسانی ہو جاتی۔
حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ ایک بات ماننا ہوگی کہ عمران خان اپنا جھوٹ پر مبنی بیانیہ یوں بیچتا ہے کہ عوام کو سچ لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ اِدھر عمران خان بات گھڑتا ہے، اور ادھر سوشل میڈیا اسکو الہام بتاتا ہے۔ یہی وجہ ،جب تک عمران کا جھوٹ پکڑا جاتا وہ دنیا کی سیر مکمل کر کے واپس آ چکا ہوتا ہے۔ اسی لیے عمران ہمیشہ بجائے حساب دینے کے حساب لیتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا ماضی کی طرح اس بار بھی عمران خان حساب کتاب دینے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ سے حساب کتاب لے گا۔ حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ اگر فیض حمید کے کورٹ مارشل کا جلد از جلد فیصلہ نہ ہوا اور حقائق سامنے نہ لائے گئے تو عمران خان اس گرفتاری سے بھی فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسا جھوٹا بیانیہ گرے گا کہ جو حقائق پر غالب آ جائے گا۔ فیض حمید نے 10 اپریل 2022 سے بھی بہت پہلے سے عمران کی سیاست کو تسلسل سے طاقت فراہم کی۔ جلسے جلوس، ریلیاں، مارچ، ضمنی انتخابات، پرویز الٰہی وزارتِ اعلیٰ، عدالتی فیصلے، اسکے پیچھے یا اوپر ’’سب فیض کا کرم تھا‘‘ کہ عمران کی بات اب تک بنی ہوئی تھی۔ لیکن مت بھولیں کہ جنرل باجوہ کی اشیرباد کے بغیر فیض ایک بندہ ناچیز تھا۔ عمران خان کے چیف منصوبہ ساز کی حیثیت سے نئے آرمی چیف کے تقرر کے بعد فیض حمید فوج میں بغاوت کی جو سازش کرتا رہا وہ 100 فیصد سکرپٹ کے مطابق تھی، چنانچہ عمران خان اپنے انجام کو پہنچنے کو ہے، شرط صعف اتنی کہ ہمیشہ کی طرح دیر نہ ہو جائے، اور فیض کارڈ بھی ماضی کے کارڈز کی طرح ایکسپائر ہو کر غیر موثر نہ ہو جائے۔ حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کے مستقبل کا انحصار جنرل عاصم منیر پر ہے۔ آج تک یقیناً انکا ہاتھ اللہ تعالیٰ نے پکڑ رکھا ہے۔ میرا تجسس کہ غیبی مدد عاصم منیر کا کب تک اور کہاں تک ساتھ دے گی؟ فیض حمید ان کے پاس آخری پتہ ہے، اگر اس سے بھی کچھ نہ نکلا پاکستان کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔