ایف آئی اے نے اسد طور کو عدلیہ دشمن کیوں قرار دیا؟

حق اور سچ کا علم بلند کرنے والے آزاد منش صحافیوں کو سبق سکھانے کے لئے ان کے خلاف بے بنیاد مقدمات بنانے والے ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ نے پاڈے بازی اور شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری دکھاتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ کی تضحیک کے الزام میں سینئر صحافی اسد طور کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ عدالت نے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تضحیک کے کیس میں گرفتار صحافی اسد طور کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا ہے۔
خیال رہے کہ حکومتی پالیسیوں کے ناقد صحافیوں کو دبانے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے کو استعمال کرنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے تازہ پیشرفت کے مطابق فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی یعنی ایف آئی اے کے سائبر کرائم سرکل نے حکومتی اور ریاستی عناصر کے ایما پر حق اور سچ کا علم بلند کرنے والے سینئر صحافی اسد طور کو ریاست اور عدلیہ مخالف قرار دے کر ان کے خلاف قانونی کاروائی شروع کر دی ہے۔ تاہم اسد طور نے ایف آئی اے کی جانب سے عائد کردہ الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انہیں آزاد میڈیا کو دباؤ میں لانے اور اسکی آواز دبانے کا ایک اوچھا ہتھکنڈہ قرار دیا ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے خلاف سوشل میڈیا مہم پر ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کی تفتیشی ٹیم نے 26 فروری کو سینئر صحافی اسد طور سے 5 گھنٹے تک مختلف سوالات کرتی رہی،سوالات کے غیر تسلی بخش جوابات دینے پر اسد طور کو حراست میں لیا گیا، ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ باہر کھڑے اسد طور کے دوستوں کو گرفتاری کی اطلاع ایف آئی اے اہلکار کے ذریعے دی گئی۔ تاہم اب اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تضحیک کے کیس میں گرفتار صحافی اسد طور کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا ہے۔وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے نے گرفتار صحافی اسد طور کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں پیش کیا۔جوڈیشنل مجسٹریٹ محمد شبیر نے کیس کی سماعت کی، ایف آئی اے نے اسد طور کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔جوڈیشل مجسٹریٹ محمد شبیر نے فیصلہ سناتے ہوئے اسد طور کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔خیال رہے کہ ایف آئی اے نے اسد طور کو انتخابات سے قبل تحریک انصاف کو ’بلے‘ کے نشان سے محروم کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اعلی عدلیہ کے خلاف ’بد نیتی پر مبنی مہم‘ کے الزامات کے تحت گزشتہ روز گرفتار کیا تھا۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم سماجی کارکن اور اسد طور کی وکیل ایمان زینب مزاری حاضر نے اسد طور کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اسد طور ہفتے کو جاری کیے گئے نوٹس کا جواب دینے اور عدلیہ کے خلاف مہم کے الزامات کے حوالے سے تحقیقات میں تعاون کرنے کے لیے 26 فروری کو اسلام آباد میں ایف آئی اے کے سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر پہنچے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ قانونی ٹیم اسلام آباد ہائی کورٹ سے حکم نامہ حاصل کرنے کے بعد ایف آئی اے کے دفتر گئی جس میں ایف آئی اے کو ہدایت کی گئی تھی کہ اسد طور کو ہراساں نہ کیا جائے لیکن اس کے باوجود انہیں قانونی ٹیم کے بغیر ایف آئی اے کے احاطے میں لے جایا گیا۔ ’ایکس‘ پر رات 9 بج کر 5 منٹ پر پوسٹ کی گئی ایک اپ ڈیٹ میں ایمان مزاری نے بتایا تھا کہ اسد طور کو ایف آئی اے نے گرفتار کر لیا ہے۔
’صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایمان مزاری نے کہا کہ ایف آئی اے کا ایک اہلکار عمارت سے باہر آیا اور لیگل ٹیم کو اسد طور کا ہاتھ سے لکھا ہوا نوٹ پہنچایا اور کہا کہ اسد طور کو باقاعدہ طور پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔’ مذکورہ نوٹ میں اسد طور کی جانب سے ان کے اہل خانہ کے لیے مختلف ہدایات درج تھیں۔ایمان مزاری کے مطابق اسد طور نے ایک کاغذ پر چند نوٹس لکھ کر بھیجے جس میں انھوں نے اپنی ضعیف ماں کا خیال رکھنے کے بارے میں درخواست کی ہے۔
ایمان مزاری نے اسد طور کی گرفتاری کا ذمہ دار ہائی کورٹ کی جانب سے بنیادی حقوق کے تحفظ میں ناکامی کو ٹھہرایا۔اس سے قبل ایک پوسٹ میں ایمان مزاری نے کہا تھا کہ اسد طور کو گزشتہ کئی گھنٹوں سے ایف آئی اے کے سیل میں حراست میں رکھا گیا ہے۔انہوں نے لکھا کہ اس ملک میں صحافیوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا جا رہا ہے وہ افسوسناک ہے، عدالتوں کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کہ بنیادی حقوق کی اس طرح کھلے عام خلاف ورزی نہ ہو۔
اسد طور کی گرفتاری سے قبل اسی کیس کے سلسلے میں ایف آئی اے حکام کی جانب سے جمعہ کو تقریباً 8 گھنٹے تک اسد طور سے پوچھ گچھ کی گئی تھی۔اسد طور کے وکیل نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر پوسٹ کیا تھا کہ اسد طور اور ان کی لیگل ٹیم صبح 10 بج کر 50 منٹ سے ایف آئی اے کی تحویل میں رہنے کے بعد اسی روز شام 7 بجے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ ہیڈ کوارٹر سے نکلے۔بعد میں اسد طور نے اپنی لیگل ٹیم اور اپنے حامیوں کا پورے واقعے میں اپنی مدد اور یکجہتی کے لیے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ایک ’مشکل وقت‘ کا سامنا کرنا پڑا۔یہ پوچھ گچھ ایسے وقت میں ہوئی جب اٹارنی جنرل آف پاکستان نے گزشتہ ماہ ہی سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ایف آئی اے صحافیوں کو بھیجے گئے نوٹسز پر عام انتخابات سے قبل کارروائی نہیں کرے گی، عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت مارچ کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی تھی۔
اسد طور کی گرفتاری پر تنقید کرتے ہوئے سینیئر صحافی حامد میر نے کہا کہ ایف آئی اے نے اسد طور کو پہلے بھی گرفتار کیا تھا لیکن وہ اس کے خلاف کچھ ثابت کرنے میں ناکام رہے تھے، اس بار وہ نئی حکومت کے تحت نئے الزامات کے ساتھ کچھ پرانے حساب برابر کرنے کی کوشش کریں گے۔ڈیجیٹل حقوق کے لیے درگرم سماجی کارکن اسامہ خلجی نے کہا کہ پاکستان میں آزادی صحافت پر حملہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے، صحافیوں کو محض رپورٹنگ کرنے، تنقیدی سوالات کرنے اور بااختیار حلقوں کے سامنے سچ بولنے پر گرفتار کرلیا جاتا ہے۔صحافی مطیع اللہ جان نے کہا کہ یہ گرفتاری انتہائی قابل مذمت ہے، یہ صحافی برادری کے لیے ایک یاددہانی ہے کہ ہائبرڈ نظامِ حکومت میں انتخابات سے کچھ بھی نہیں بدلتا۔
کمیٹی فار پروٹیکشن آف جرنلسٹس ان ایشیا (سی پی جے) نے پاکستانی حکومت سے صحافی اسد طور کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔کمیٹی کا کہنا ہے اسد طور کو ان کے پیشہ ورانہ صحافتی ذمہ دارویوں کے لیے ہراساں کرنا بند ہونا چاہیے۔ ’اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی صحافی اسد علی طور کی گرفتاری سے ہم حیرت زدہ ہیں۔دوسری جانب اسد طور پر ایف آئی اے کے مقدمے کی ایف آئی آر سامنے آگئی، جس میں اسد طور پر سرکاری افسران کیخلاف منفی اور جھوٹا بیانیہ بنانے کے لیے مہم چلانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں اسد طور پر ریاستی اداروں اور افسران کیخلاف لوگوں کو تشدد پر اکسانے کا الزام ہے۔ایف آئی آر کے مطابق اسد طور نے ٹوئٹر اور یوٹیوب کے ذریعے بدنیتی پر مبنی مہم چلائی۔ اسد طور نے سوشل میڈیا کے ذریعے ریاست مخالف سرگرمیوں کو ہوا دی۔ اسد طور کے خلاف پیکا آرڈیننس 2016 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔