بلوچستان اور KPKمیں گرینڈ فوجی آپریشن کا مطالبہ زور کیوں پکڑنے لگا؟

ملک میں دہشتگردوں کی بڑھتی ہوئی شرپسندانہ کارروائیوں کے بعد شدت پسندوں کی سرکوبی کیلئے گرینڈ ملٹری آپریشن کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق اس میں کوئی دو رائے نہیں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مربوط اور ٹارگیٹڈ آپریشن وقت کی ضرورت بن چکا ہے لیکن اس عوامی مطالبے پر عملدرآمد سے قبل سیاسی وعسکری قیادت کا ایک پیج پر آنا ناگزیر ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق گذشتہ چار دہائیوں میں پاکستان میں دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات ہوئے لیکن دہشتگردوں کی جانب سے سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد جعفر ایکسپریس پر حملہ کر کے 400 سے زیادہ مسافروں کو یرغمال بنانا ایسے واقعات ہیں، جسے ریاست اور عام اور نہتے پاکستانیوں پر براہ راست حملہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ مبصرین کے بقول اب حالات کا تقاضا یہ ہے کہ جس طرح اے پی ایس حملے کے بعد پوری قوم نے اکٹھے ہو کر حالات کا مقابلہ کیا تھا، نیشنل ایکشن پلان بنا، درجنوں آپریشن ہوئے، جس کے نتیجے میں چند سال نسبتاً پُر امن گزرے۔ اب بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ اسی طرز پر ایک جامع اور مضبوط پالیسی کے ساتھ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر اور یکجا ہو کر ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے، جن کے نشانے پر نہ صرف سکیورٹی فورسز بلکہ نہتے اور معصوم عوام ہیں۔

تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج ملک کو جس دہشتگردی کا سامنا ہے اس کے پروان چڑھنے کی وجہ کیا ہے؟ تجزیہ کاروں کے مطابق ماضی میں آرمی پبلک سکول کے سانحے کے بعد ایک جامع اور مربوط نیشنل ایکشن پلان بنا، جس پر عمل در آمد بھی ہوا لیکن پھر وہی ہوا، جو ہوتا آیا کہ عمل درآمد کے لیے جو تسلسل چاہیے وہ ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد 2019 میں ایک دفعہ پھر نیشنل ایکشن پلان کی دستاویز کو اپ ڈیٹ کر کے اس پر عمل درآمد کے اعلانات ہوئے لیکن ہم پھر کچھ عرصے بعد ملکی سیاست میں گم ہو کر نیشنل ایکشن پلان کو بھول گئے اور ایسے بھولے کہ کچھ عرصے بعد جب افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی تو اسے ہم نے غلامی کی زنجیریں توڑنے کے مترادف قرار دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ کابل میں ہماری انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ جنرل (ر) فیض حمید نے چائے نوش کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’آل ول بی ویل۔‘ فاسٹ فارورڈ کریں تو اس کے بعد ’شدت پسندوں‘ سے بات چیت کر کے انہیں ہزاروں کی تعداد میں پاکستان میں بسایا گیا۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت آپ 2014 سے مسلسل سات، آٹھ سال ’شدت پسندوں‘ کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت لڑتے رہے، شہدا کے جنازے اٹھاتے رہے، لیکن آخر میں آپ نے فیصلہ وہ کیا جس کی سمجھ آج تک کسی کو نہ آئی کیونکہ جن کے خلاف آپ لڑتے رہے، ان ہی ’شدت پسندوں‘ کو آپ نے ایک ہی فیصلے سے اپنا دوست بنا لیا۔ کنفیوژن کی اسی پالیسی نے ہمیں گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں دوسرے نمبر پر لا کھڑا کیا۔مبصرین کے مطابق آج جو پاکستان میں ہو رہا ہے تو ’آل ول بی ویل‘ کے وائرل کمنٹ کا خلاصہ یہی بنتا ہے کہ اس وقت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور عمرانڈو حکومت کی غلط اور دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے آج پاکستان کو شرپسندانہ کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن میں جہاں نہتے عوام جان کی بازی ہار رہے ہیں وہیں سیکیورٹی فورسز کے جوان بھی آئے روز جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔

کیا حریت پسندی کا نقاب اوڑھے بلوچ دراصل دہشت گرد ہیں؟

تاہم تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ اب جبکہ ریاست ’شدت پسندوں‘ سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کر چکی ہے اور اس پر اتفاق رائے موجود ہے، ہمیں یہ فیصلہ بھی کر لینا چاہیے کہ یہ ہمارا اٹل فیصلہ ہے۔ مبصرین کے مطابق اس میں دو رائے نہیں کہ بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مربوط اور ٹارگیٹڈ آپریشن وقت کی ضرورت ہے، لیکن اس کیلئے سیاسی و ملٹری لیڈر شپ کے مابین اتفاق رائے ناگزیر ہے۔اس کیلئے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنا کر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں بشمول بلوچ قوم پرست جماعتوں کو آن بورڈ لیا جانا چاہیے۔ تاکہ ریاست دشمن شرپسندوں کا جڑ سے خاتمہ کیا جا سکے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر شاید ہی کوئی محب وطن پاکستانی ہو گا جو ایک جامع اور مربوط حکمت عملی کے تحت دہشت گردوں کے خلاف یونے والے گرینڈ آپریشن کی مخالفت کرگا، لیکن بلوچستان میں کسی قسم کے آپریشن کے آغاز سے پہلے دو ممالک افغانستان اور ایران کے کردار کو ضرور مدنظر رکھ کر اس بارے میں حکمت عملی بنانی ہو گی کیونکہ بی ایل اے کی لیڈر شپ نہ صرف افغان بلکہ ایران کی سر زمین بھی پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ بلوچستان کے معاملے پر پاکستان ایران تعلقات گذشتہ کچھ عرصے سے مثالی نہیں رہے۔ اس لئے ملک دشمن دہشتگردوں کیخلاف کوئی بھی آپریشن شروع کرنے سے پہلے ان دونوں ممالک سے دو ٹوک اور واضح بات کرنی ہو گی کہ اب پاکستان اپنی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔مبصرین کے مطابق سیاسی اتفاق رائے کے ساتھ ایک ایسا گرینڈ آپریشن، جس میں ایران اور افغانستان کی سرزمین استعمال نہ ہو سکے، تبھی وہ نتائج دے سکے گا، جس کی اس وقت پاکستان کو ضرورت ہے۔

Back to top button