گنڈاپور حکومت کرم میں قتل و غارت روکنے میں ناکام کیوں ہے؟

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں گذشتہ ڈیڑھ ہفتے سے فرقہ وارانہ فسادات اور جھڑپوں کے باعث زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے جبکہ وزیر اعلی علی امین گنڈاپور حکومت کی جانب سے مخالف دھڑوں سے امن جرگے کے مذاکرات کے بعد بھی جنگ بندی پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ جب کرم میں فسادات عروج پر تھے تو گنڈاپور وفاق پر چڑھائی کے لیے اسلام آباد روانہ ہو گئے جس سے صورتحال اور بھی خراب ہو گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد سے واپسی کے بعد بھی وزیراعلی اس مسئلے پر توجہ نہیں دے رہے۔

بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق گنڈاپور کی حکومت نے پانچ روز پہلے شیعہ سنی فریقین سے ملاقات کے بعد سیز فائر کا اعلان کیا تھا اور یہ فیصلہ ہوا تھا کہ دونوں اطراف یرغمایوں کو رہا کر دیں گی اور لاشیں بھی ان کے آبائی علاقوں کو واپس بھیجی جائیں گی۔ مذاکرات کے بعد جنگ بندی پر اتنا عمل ضرور ہوا کہ لاشیں واپس کر دی گئیں اور یرغمالی بھی رہا کر دیے گئے لیکن شیعہ اور سنی گروپس کی جانب سے ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ علاقے میں مواصلات کے رابطے منقطع ہیں اور بڑی تعداد میں لوئر کرم کے متاثرہ علاقوں سے لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ تشدد کی تازہ لہر میں 100 سے زیادہ افراد ہلاک اور 150 زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم اس مسئلے کا حل نکالنے کی بجائے گنڈاپور اسلام اباد میں 100 لاشیں گرنے کا جھوٹا الزام لگانے پر زیادہ فوکس کر رہے ہیں۔

28 نومبر کو دوبارہ شروع ہونے والی جھڑپوں میں متعدد افراد کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ان میں تین کی تصدیق کی گئی، جن کی لاشیں لوئر کرم کے ہسپتال صدہ میں لائی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ 21 نومبر کو اپر کرم سے پشاور اور پشاور سے اپر کرم اور صوبے کے دیگر علاقوں کو جانے والی گاڑیوں کے قافلے پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا تھا جس میں ابتدائی طور پر تو 44 افراد ہلاک ہوئے لیکن پانچ افراد بعد میں ہسپتالوں میں دم توڑ گئے تھے۔

اس کے بعد اگلے روز اپر کرم کے علاقے علیزئی سے لوئر کرم کے علاقے بگن اور قریبی دیہات میں مسلح افراد نے حملہ کیا اور بازار میں دکانوں اور مکانات کو آگ لگا دی گئی۔ اس جھڑپ میں 32 افراد ہلاک ہوئے۔

لوئر کرم کے علاقے بگن کے شہریوں نے بتایا ہے کہ ان کا گاؤں مکمل طور پر خالی ہو چکا ہے کیونکہ لوگوں نے کشیدگی کی وجہ سے نقل مکانی کر لی ہے۔ گھروں میں جو اکا دکا مرد موجود ہیں وہ اپنے تباہ شدہ مکانوں پر پہرہ دے رہے ہیں۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ لوئر کرم سے 300 سے زیادہ خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں جن میں سے کچھ ٹل، سروخیل، سرزدان، دوآبہ، ہنگو، کوہاٹ اور پشاور کے علاقوں میں چلے گئے ہیں۔

ضلع کرم میں تشدد کے واقعات کی تاریخ پرانی ہے لیکن گزشتہ چند ماہ سے حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ پاکستان سٹڈیز سنٹرکے پروفیسر فرمان اللہ کہتے ہیں کہ ضلع کرم میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ حالیہ تاریخ میں 1961 میں شروع ہوئے جن میں بڑی ہلاکتیں ہوئیں اور پھر ہر دس یا پندرہ سال کے وقفے کے بعد اس طرح کے واقعات پیش آتے رہے اور سنہ 2007 میں ہونے والے تشدد کے واقعات میں بہت ہلاکتیں ہوئیں تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اس کی بنیادی وجوہات میں فرقہ وارانہ کشیدگی، قبائلی تنازعات خاص طور پر زمین کے تنازعے، جنونیت، عدم اعتماد، اسلحے کی فراوانی اور کمزور حکومت شامل ہیں۔

افغان جنگ کے اثرات اور پھر شدت پسند تنظیموں کی موجودگی سے بھی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر زاہد علی کا تعلق ضلع کرم کے علاقے پاڑہ چنار سے ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ حالیہ واقعات چاہے وہ ایک قافلے پر حملہ ہو یا اس کے رد عمل میں حملے کیے گئے ہوں، ان کو کسی صورت جائز نہیں کہا جا سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ پے در پے واقعات حکومت کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں اور ایسے گروہ یا افراد جو مذہب اور مسلک کو استعمال کرتے ہیں ان کو قانون کے مطابق سزا دینی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ اب یہ واقعات اس لیے بھی زیادہ سامنے آ رہے ہیں کیونکہ سوشل میڈیا کے ذریعے خبر پھیل جاتی ہے۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کا پارٹی قیادت کے خلاف وائٹ پیپر عمران خان کو بھیجنےکا فیصلہ

دوسری جانب صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے بتایا ہے کہ حالیہ واقعات کے بعد کے پی حکومت نے اہل تشیع اور اہل سنت کے ساتھ الگ الگ جرگے کیے ہیں اور اس میں انتظامیہ کے علاوہ فوجی افسران بھی موجود تھے۔ یہ فیصلہ ہوا تھا کہ قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ ان میں دونوں جانب سے خواتین بھی تھیں اور لاشیں واپس کرنے کی بات ہوئی تھی اور دس روز کے لیے جنگ بندی کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک معمولی جھڑپوں کی بات ہے تو آپ کو سمجھنا چاہیے کہ یہ بڑا علاقہ ہے یہاں سینکڑوں چھوٹے چھوٹے دیہات اور وادیاں ہیں۔

بیرسٹر سیف نے مزید کہا کہ اگر کسی ایک گاؤں میں لڑائی ہو رہی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پورے ضلع میں جھڑپیں ہو رہی ہیں۔انھوں نے کہا ’اگر کہیں کوئی بڑا حملہ کرتا ہے تو پھر جنگ بندی کا معاہدہ ختم ہو جائے گا لیکن انتظامیہ کی کوشش ہے کہ کسی طرح بڑے حملے کی نوبت نہ آئے، سیز فائر جاری رہے اور صلح کے لیے کوششیں کی جائیں تاکہ ضلع میں مکمل امن قائم ہو سکے۔

Back to top button