خیبر پختون خواہ میں گورنر راج کا فوری نفاذ ضروری کیوں ہو گیا؟
معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ خیبر پختون خواہ کے وزیراعلی کی جانب سے آئے روز اسلام اباد پر سرکاری مشینری استعمال کرتے ہوئے کی جانے والی یلغار کو روکنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ صوبے میں فعتی طور پر گورنر راج نافذ کر دیا جائے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اگر خیبر پختون خواہ حکومت کے آگے بند نہ باندھا گیا تو اسکے اثرات پورے ملک میں پھیلیں گے اور گنڈاپور کی حکومت کے ہاتھوں ریاست کی رٹ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ گنڈا پور رواں برس اکتوبر میں اپنے ہمراہ آئے قافلے کو غچہ دے کر اسلام آباد کے خیبر پختونخواہ ہائوس پہنچ گئے تھے۔ وہاں چند ہی لمحے گزارنے کے بعد موصوف ’’غائب‘‘ ہو گئے اور کئی گھنٹوں تک لاپتہ رہنے کے بعد حیران کن انداز میں پشاور پہنچ گئے۔ اب کی بار اکتوبر کی کہانی دہرانا مشکل نظر آرہا ہے۔ اس کی وجہ عمران خان کی اہلیہ ہیں جو اب احتجاجی قافلے کی قیادت سنبھال چکی ہیں۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ چند روز قبل عدالت سے ضمانت کے حصول کے بعد وہ پشاور چلی گئی تھیں۔ وہاں وزیر اعلیٰ کے لئے مختص گھر میں مقیم رہیں اور کارکنوں سے رابطے استوار کئے۔ وہاں قیام کے دوران ہی انہوں نے جمعرات کے روز ایک وڈیو پیغام بھی جاری کیا جا کا مواد ہمارے برادر ملک سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کافی قابل اعتراض تھا۔ لیکن عاشقان عمران اس بارے فکر مند نہیں۔ بشریٰ بی بی پشاور سے آئے قافلے میں نہ صرف شامل ہوئیں بلکہ اس پر کڑی نگاہ بھی رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے علی امین گنڈا پور کے لئے اکتوبر کی تاریخ دہرانا تقریباََ ناممکن ہوجائے گا۔
علی امیں گنڈاپور کے ہمراہ پشاور سے آئے قافلے کو روکنے کے لئے ہر نوعیت کا ہتھکنڈہ استعمال کرنا ہوگا۔ اس کی وجہ سے ایک صوبے کے عوام ہی نہیں بلکہ وہاں کی حکومت بھی پنجاب کے علاوہ وفاق کے خلاف بھی علم بغاوت اٹھاتی نظر آئے گی۔ ہمارا تحریری آئین ایسی صورتحال سے نبردآزما ہونے کا واضح راستہ فراہم نہیں کرتا۔ چنانچہ خیبر پختونخواہ میں گورنر راج ہی واحد حل نظر آتا ہے۔ لیکن اس کا نفاذمگر ایک بار پھر عدالتوں کو سیاسی قضیوں میں ملوث کردے گا۔ معاملات حد سے بڑھے تو آئین میں تحریر شدہ محدودات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چند طاقتور ادارے ’’وفاق بچانے‘‘ کے نام پر غیر معمولی اقدامات لینے کو مجبور ہوسکتے ہیں۔ دوسری صورت میں وفاق اور پنجاب پولیس علی امین گنڈا پور کے ہمراہ آئے قافلے کو راستہ دینے کو مجبور ہوجائیں گی۔ اگر انہیں راستہ مل گیا تو راولپنڈی ہی نہیں بلکہ اسلام آباد میں موجود تحریک انصاف کے چاہنے والوں کے حوصلے بلند ہوجائیں گے۔ بشری بی بی کے کے ڈی چوک پہنچنے تک کارکنوں کا جم غفیر ان کے استقبال کو موجود ہوگا جو ڈیی چوک میں دھرنا دینے کے لیے تیار ہیں۔
نصت جاوید کہتے ہیں کہ ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟ بظاہر عاشقان عمران فقط یہ چاہتے ہیں کہ ان کے قائد کو فی الفور رہا کردیا جائے۔ بشری بی بی نے بھی یہی ایک مطالبہ کر رکھا ہے اور ان کا موقف ہے کہ وہ اپنے شوہر کو لیے بغیر واپس نہیں جائیں گی۔ لیکن بقول نصرت میں یہ بات نہیں مانتا کہ اگر عمران خان کو رہا کردیا گیا تو وہ اڈیالہ جیل سے ڈی چوک پہنچ کر اپنے کارکنوں سے خطاب میں انہیں گھر لوٹنے کا حکم دے کر بنی گالہ روانہ ہو جائیں گے۔ فرض کیا ایسا ہو بھی گیا تو بنی گالہ پہنچتے ہی حکومت کے خلاف اگلے رائونڈ کی تیاری شروع کردیں گے۔
نصرت جاوید کے بقول عمران خان رہائی کے بعد شہر شہر جاکر لوگوں کو قائل کریں گے کہ 8 فروری 2024ء کے دن ان کی پارٹی کا مینڈیٹ چرایا گیا تھا۔ انکا موقف یہ ہو گا کہ پاکستان میں امن وخوش حالی فقط اسی صورت یقینی بنائی جا سکتی ہے اگر فارم 47 کی بدولت قائم ہوئی حکومت کا خاتمہ ہو جائے۔ وہ مطالبہ کریں گے کہ اس کی جگہ عبوری حکومت کا قیام عمل میں آئے جس کا واحد مقصد فوری انتخاب ہوں۔ اسلام آباد پر لشکر کشی کی بدولت عمران خان کی رہائی گویا وقتی بحران سنبھالنے کے بعد مزید بحرانوں کو جنم دے گی۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ نئے انتخاب کا ذکر چلا ہے تو سوال یہ بھی اٹھے گا کہ وہ فقط نئی قومی اسمبلی کے چنائو کے لئے ہوں گے یا چاروں صوبوں سے بھی ’’نیا مینڈیٹ‘‘ حاصل کیا جائے گا۔ نئے انتخاب کے حصول کے لئے لازمی ہے کہ موجودہ وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ اپنی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اعلان کریں۔ شہبازشریف اور مریم نواز صاحبہ وفاق اور پنجاب کے حوالے سے اس کے لئے آمادہ ہو بھی گئے تو اس امر کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا کہ مراد علی شاہ بھی سندھ اسمبلی کی تحلیل کو رضا مند ہوجائیں گے۔ بلوچستان کے سرفراز بگتی بھی انکار کرسکتے ہیں۔ وہ دونوں راضی نہ ہوئے تو پاکستان کے دو صوبے -بلوچستان اور سندھ- ’’قومی دھارے‘‘ سے جدا ہوئے نظر آئیں گے۔ لہازا دبائو کے نتیجہ میں عمران خان کی رہائی کے باوجود ’’سیاسی استحکام‘‘ مفقود رہے گا۔ ابتری اور خلفشار کے بلکہ نئے باب کھل جائیں گے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ کہ عمران خان کی رہائی بھی اب سیاسی استحکام یقینی نہیں بنا سکتی، بلکہ ان کی رہائی کے بعد بلکہ سیاسی قضیوں کے نئے باب کھلیں گے جن سے بچائو کے لئے ریاست کے دائمی اداروں کو شاید ’’کچھ نیا‘‘ کرنا پڑے گا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اسلام اباد میں پہلے ہی آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو بلا لیا گیا ہے لہذا اگر ٹکراؤ ہوتا ہے تو جمہوریت کا بوریا بسترا بھی گول ہو سکتا ہے۔