عمران کے لیے اپنی کرسی بچانا نا ممکن کیوں ہو گیا؟

حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروانے کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ حکومتی اراکین کو تحریک عدم اعتماد ووٹنگ کے روزاسمبلی اجلاس میں شرکت سے روک دیا جائے تاکہ اپوزیشن جماعتیں 172 کا میجک نمبر حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو پائیں۔ تاہم اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسے اوچھے ہتھکنڈے اپنا کر عمران خان اپنی کرسی نہیں بچا سکتے.

یاد رہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد اب یہ اپوزیشن جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کریں تاکہ وزیر اعظم کی چھٹی کروائی جا سکے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ عدم اعتماد کے روز حکومتی اراکین قومی اسمبلی کو اجلاس میں شرکت سے منع کردیا جائے تاکہ وزیر اعظم کے خلاف کوئی بھی رکن باغی ہوکر ووٹ نہ ڈال سکے۔

دوسری جانب اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کسی بھی صورت کسی رکن قومی اسمبلی کو اسمبلی اجلاس میں شرکت سے نہیں روک سکتی، انکا کہنا یے کہ جو اراکین اسمبلی وزیر اعظم کے خلاف ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کر چکے ہیں وہ ہر صورت اسمبلی پہنچیں گے اور اپوزیشن جماعتیں انہیں اپنے ساتھ لے کر جائیں گی۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع کروائے جانے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی پر لازم ہے کہ وہ سات روز کے اندر اسمبلی کا اجلاس بلائیں تاکہ وزیراعظم کے مستقبل کا فیصلہ ہوسکے۔ تاہم حکومتی ذرائع اصرار کر رہے ہیں کہ اسپیکر کے پاس ووٹنگ کروانے کے لیے 7 نہیں بلکہ 14 روز کا ٹائم موجود ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے 8 مارچ کو وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروانے کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن بھی جمع کروائی ہے۔

اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ اسمبلی رولز کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے تین سے لے کر سات دن کے دوران قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے پابند ہیں۔ حزب مخالف کی جماعتوں کے رہنماوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انھیں اس تحریک عدم اعتماد میں دو سو سے زائد ارکان قومی اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔ تحریک اعتماد کی کامیابی کے لیے 172 ووٹ درکار ہوں گے۔ عمران خان کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد پر 86 اراکین قومی اسمبلی کے دستخط موجود ہیں۔

یاد رہے کہ چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے صوبہ پنجاب کے علاقے میلسی میں عوامی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے لیے تیار ہیں، انھوں نے اپوزیشن سے سوال کیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کی صورت میں وہ اپوزیشن کے ساتھ جو کچھ کریں گے کیا وہ اس کے لیے تیار بھی ہیں؟
تاہم اب صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہوتی نظر آتی ہے کیونکہ تحریک انصاف کی دو مضبوط ترین شخصیات جہانگیر خان ترین اور علیم خان نے عمران خان کے خلاف بغاوت کر دی ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت تحریک عدم اعتماد جمع کروانے کے بعد تین دن سے پہلے یا سات دن بعد اس تحریک پر ووٹنگ نہیں ہو سکتی۔

قومی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت سے منظور ہو جانے پر وزیر اعظم اپنے عہدے پر فائز نہیں رہ سکیں گے۔ اس وقت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اس کی حمایت میں 172 ووٹ درکار ہیں۔ قومی اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق حکومتی جماعت پی ٹی آئی کو اتحادیوں سمیت 178 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ ان اراکین میں خود پاکستان تحریک انصاف کے 155 اراکین، ایم کیو ایم کے سات، بی اے پی کے پانچ، مسلم لیگ ق کے بھی پانچ اراکین، جی ڈی اے کے تین اور عوامی مسلم لیگ کے ایک رکن حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔

عبدالعلیم خان بطوروزیراعلیٰ کسی صورت قبول نہیں

دوسری جانب حزب اختلاف کے کل اراکین کی تعداد 162 ہے۔ ان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے 84، پاکستان پیپلز پارٹی کے 57 اراکین، متحدہ مجلس عمل کے پندرہ، بی این پی کے چار جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک رکن شامل ہے۔ اس کے علاوہ دو آزاد اراکین بھی اس اتحاد کا حصہ ہیں۔

اگر پارٹی پوزیشن دیکھی جائے تو حزب مخالف کو دس مزید اراکین کی حمایت درکار ہے۔ جماعت اسلامی، جن کے پاس قومی اسمبلی کی ایک نشست ہے، نے فی الحال کسی کا ساتھ دینے کا اعلان نہیں کیا۔ اب حزب اختلاف کی جانب سے حکومتی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کے علاوہ جہانگیر ترین گروپ سے بھی رابطے کیے جا رہے ہیں۔ جہانگیر ترین گروپ کا دعویٰ ہے کہ ان کے ساتھ اس وقت سات ممبران قومی اسمبلی ہیں۔

حزب اختلاف کی جماعتیں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک کی کامیابی کے لیے ووٹ پورے کرنے کی غرض سے حکومتی اتحادیوں سے ملاقاتیں کر رہی ہیں۔یہ دعوے بھی کیے جا رہے ہیں کہ خود حکومتی جماعت کے بعض اراکین سے بھی رابطہ مہم جاری ہے۔ حکومتی اراکین ہوں یا حزب اختلاف کے ممبران، جس سے بھی بات کی جائے انھیں مکمل اعتماد ہے کہ تحریک کا فیصلہ انھی کے حق میں ہو گا خصوصا تحریک انصاف کے اندر ایک علیحدہ دھڑا بن جانے کے بعد۔

Why was it impossible for Imran to save his chair? Urdu news

Back to top button