افغانستان میں TTPنیٹ ورک پر پاکستانی حملے ضروری کیوں تھے؟

سرحد پار سے مسلسل پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافے کے بعد پاک فضائیہ کی جانب سے افغانستان میں تحریک طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کے نتیجے میں 42 عسکریت پسندوں کی ہلاکت سے پاک افغان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے اور دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین ایک برس کے بعد شروع ہونے والے مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔ پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کا ایکشن اب بہت ضروری ہو گیا تھا چونکہ افغان طالبان حکومت کی حمایت سے مسلسل حملے کرنے والے پاکستانی طالبان بے خوف ہوتے جا رہے تھے۔

دودری جانب افغانستان کے سرحدی صوبے پکتیکا میں پاک فضائیہ کی کامیاب کارروائی کے بعد طالبان کی جانب سے اس کا جواب دینے کا اعلان کیا گیا یے۔ افغانستان کی طالبان حکومت نے دعوی کیا تھا کہ 24 دسمبر کی شام پاکستانی فوج کی فضائی کارروائی میں 46 شہری ہلاک ہوئے۔ پاک فوج نے باضابطہ طور پر اس کارروائی سے متعلق کچھ نہیں بتایا، تاہم سیکیورٹی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ کارروائی میں اہم کمانڈروں سمیت 42 عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔

لیکن طالبان حکومت نے پاکستان کی جانب سے صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں ہونے والی بمباری کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ایک "وحشیانہ قدم” اور سفارتی اصولوں کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ رواں برس مارچ میں بھی پاکستانی طیاروں نے افغان صوبوں پکتیکا اور خوست میں کارروائیاں کی تھیں۔
پاکستانی دفترِ خارجہ نے اس آپریشن کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ کارروائی میں حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا تھا جو کہ پاکستان میں فوجی دستوں پر دہشت گرد حملوں میں ملوث تھے۔

24 دسمبر کی شام پاک فوج کی جانب سے ہونے والی فضائی بمباری ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی صادق خان نے کابل میں افغان طالبان حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔ پہلے یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ پاکستان نے بمباری سے پہلے اپنے نمائندے کے ذریعے افغان حکومت کو اس بارے اگاہ کیا ہو گا، لیکن طالبان حکام کی جانب سے جو سخت رد عمل آیا ہے اس سے ایسا نہیں لگتا۔ مبصرین اس معاملے کو دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے موجود تناؤ میں اضافے کا سبب قرار دے رہے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک طرف پاکستانی عہدے دار کابل میں ہے اور دوسری طرف فضائی کارروائی کی گئی ہے جس سے تناؤ مزید بڑھے گا۔ تو ہم کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ شاید یہ پاکستان کی جانب سے کیرٹ اینڈ سٹک پالیسی کا اظہار ہے۔

سینیئر صحافی زاہد حسین کا کہنا ہے کہ شائد پاکستان نے ان حملوں کے ذریعے طالبان حکومت کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ اگر وہ مذاکرات کے ذریعے پاکستان کے مطالبات کو پورا نہیں کرتے تو پاکستان عسکری قوت کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ ان کے بقول طاقت کا استعمال پاکستان کو درپیش عسکریت پسندی کے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اسے مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں افغانستان میں طالبان مخالف حلقے بھی اس حملے پر برہم دکھائی دیتے ہیں۔

یاد رہے کہ پچھلے ہفتے افغان بارڈر سے متصل جنوبی وزیرستان کے علاقہ مکین میں ایک فوجی چیک پوسٹ پر حملے کے نتیجے میں کم از کم 16 پاکستانی سیکیورٹی اہلکار ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمے داری کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پاک فضائیہ کی افغانستان میں تحریک طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری ان حملوں کا رد عمل ہے۔

سابق سیکریٹری فاٹا اور سینئر تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ افغان سرزمین پر کیے گئے حملے کو درست قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کئی مرتبہ افغان طالبان سے کہہ چکا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو سرحد پار کارروائیوں روکیں۔ لیکن وہاں سے کوئی مثبت جواب نہیں آیا۔ ان کے بقول ملک کی سالمیت سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں محمود شاہ کا کہنا تھا کہ اس قسم کے حملوں سے پاکستان کے اندر شورش بڑھ سکتی ہے۔ لیکن پاکستان کھلم کھلا تماشا نہیں دیکھ سکتا ہے۔ اُن کے بقول اب جب پاکستان کے پاس وسائل بھی ہیں اور طاقت بھی ہے تو ملک میں جاری دہشت گردی کا جواب لازمی طور پر بنتا ہے اور پاکستان کو جارحانہ حکمتِ عملی استعمال کرنی ہو گی۔

لیکن کابل میں مقیم سینئر تجزیہ کا عبدالوحید وحید کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے وقت کے ساتھ ساتھ افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ان حملوں کے بعد تو ان میں مزید اضافہ ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان کافی عرصے سے بداعتمادی ہے۔ بجائے اس کے مصالحت کے ساتھ مسائل حل کیے جائیں، دونوں جانب سے جارحانہ رویہ ہی اختیار کیا جاتا رہا ہے۔ بدالوحید وحید کا کہنا تھا کہ افغان عوام میں ان حملوں کے باعث شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ چنانطہ ایسے حالات میں جہاں افغان حکومت کی سالمیت اور خود مختاری چیلنج ہوئی ہوئی ہے۔ وہیں آنے والے دنوں میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں شدت آ سکتی ہے۔

Back to top button