سول بیوروکریسی میں ہونے والی ترقیوں میں زیادتیاں کیوں ہوئیں ؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ اگرچہ آج کے ہائبرڈ پاکستان میں افسر شاہی یعنی بیوروکریسی بہت کمزور ہو چکی ہے لیکن وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کے گورننس سٹائل میں افسر شاہی کا کردار اب بھی سب سے اہم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شریف خاندان اپنے تمام تر سیاسی یا عوامی فیصلوں پر عملدرآمد، اپنی پسندیدہ بیوروکریسی کے ذریعے ہی کروانے کا عادی ہے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جب سے پاکستان بنا ہے اس میں یا تو افسر شاہی سیاست کرتی رہی ہے یا پھر خود افسر شاہی سے سیاست ہوتی رہی ہے۔ یہ ملک بنتے ہی چودھری محمد علی، غلام محمد ملک، سکندر مرزا، اور ان کے کاسہ لیس افسروں نے اہم فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ 1954 کے بعد پہلے دھیرے دھیرے اور پھر 1958 کے مارشل لا کے بعد تیزی سے اقتدار سول افسران سے لیکر فوجی افسروں کو منتقل کر دیا گیا، مگر پھر بھی قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر جیسے کچھ سول افسر فیصلہ سازی میں اہم حیثیت رکھتے تھے۔
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ اگرچہ افسر شاہی آج کے ہائبرڈ نظام میں بہت کمزور ہوچکی ہے مگر شہباز شریف اور مریم نواز اپنے فیصلوں پر عملدرآمد افسر شاہی کے ذریعے ہی کرواتے ہیں۔ حال ہی میں ہونے والی گریڈ 21 اور گریڈ 22 کے سول افسران کی ترقیوں کے بعد ایک طرف مبارکبادوں کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب ترقی سے محروم رہ جانے والے افسران پر سوگ طاری ہے، ایسے میں دیکھنا یہ ہے کہ حالیہ ترقیوں میں کتنی سیاست چلی ہے اور کتنی اہلیت؟
سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کیا وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ سینئر بیورو کریٹ توقیرشاہ نے طویل عرصہ ایک باتدبیر مشیر کے طور پر کام کیا ہے۔ حال ہی میں انہیں باقاعدہ وفاقی مشیر بناکر وزیر اعظم کی نوکر شاہی اور ان کا دفتر توقیر شاہ کے حوالے کر دیا گیا ہے، گویا اب پرنسپل سیکرٹری کا کام بھی وہی کریں گے اور افسر شاہی اور سیاست کے حوالے سے مشورے بھی وہی دیں گے۔ یہ ایک خوش گوار تبدیلی ہے کیونکہ کئی وزراء کو وزیر اعظم کے دفتر میں اپنے چھوٹے چھوٹے کام بھی رکنے کی شکایت تھی، اس سے پہلے توقیر شاہ ورلڈ بینک میں ملازمت کے لیے امریکہ چلے گئے تھے، توقیر شاہ کی عدم موجودگی میں شہباز شریف افسر شاہی کے معاملے میں احد چیمہ پر زیادہ انحصار کرتے تھے۔
سینیئر صحافی بتاتے ہیں کہ توقیر شاہ اور احد چیمہ دونوں ہی شہباز شریف کے دیرینہ وفادار رہے ہیں، دونوں نے نون کے سرد و گرم موسم دیکھے ہیں اور احد چیمہ تو کرپشن کے الزامات پر جیل میں بھی رہے ہیں، لیکن توقیر شاہ کا تجریہ کافی طویل ہے، وہ اچھی شہرت کے حامل ہیں اور سیاسی ادراک بھی رکھتے ہیں۔ شاہ صاحب نوکر شاہی اور سیاسی سوچ دونوں سے آگاہی رکھتے ہیں۔ دوسری جانب توقیر شاہ کی نسبت احد چیمہ کی گردن میں سریا ہے اور وہ زیادہ سخت گرفت کے قائل ہیں، موصوف ناپسندیدہ افسروں کو معاف کرنے پر جلدی تیار نہیں ہوتے، ان کی پسند اور نا پسند انکے فیصلوں میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن توقع کی جا رہی ہے کہ توقیر شاہ جیسے تجربہ کار مشیر کے واپس آنے سے وزیر اعظم کے دفتر کی سیاست اور گورننس میں کارکردگی بہتر ہو گی۔
تاہم سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ انہیں یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ حال ہی میں اگلے گریڈ میں ترقی پانے والے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اسد گیلانی کو انکے عہدے سے ہٹا کر قومی ورثہ کی غیر اہم وزارت کا سیکرٹری بنا دیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس فیصلے میں بھی احد چیمہ کا عمل دخل ہے۔ اسی پر بس نہیں، اگر کسی افسر نے تحریک انصاف کے دور میں کوئی اہم پوسٹنگ لی تھی تو اسے اس کی اعلیٰ کارکردگی کے باوجود حالیہ ترقیوں کے عمل میں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ افسر شاہی جتنی بھی فرعون بنے، چاہے عام لوگوں سے آدھا ہاتھ ملائے پھر بھی اس کی جان صرف دو "پیز” (Ps) میں ہوتی ہے، یعنی پوسٹنگ اور پروموشن۔ اردو میں ترقی اور تبدیلی ان کی نوکری کا محور و مرکز ہوتی ہے، حکومت کوئی بھی ہو، وہ چاہتے ہیں کہ انہیں اچھی پوسٹنگ ملے اور جب موقع آئے تو پروموشن بھی ملے۔ اس مرتبہ بہت سارے افسروں کا خیال ہے کہ انہیں افسر شاہی کی اندرونی سیاست کی وجہ سے ترقی نہیں ملی جبکہ موجودہ حکومت میں افسر شاہی کے پسندیدہ سفارشیوں کو ترقیاں مل گئیں جن کی اہلیت ان کے مقابلے میں کم تھی۔
سہیل وڑئچ کہتے ہیں کہ انہیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ انسپیکٹر جنرل آف پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور کو بھی گریڈ 22 میں ترقی مل گئی۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے خواتین، ٹرانس جینڈر اور محروم طبقات کے لیے فلاحی اقدامات کرنے کے علاوہ پولیس کی فلاح و بہبود کے لئے بھی بہت کچھ کیا ہے۔ انہوں نے پولیس کے ملازمین کو اس قدر ترقیاں دیں کہ ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی، انہوں نے دہشت کی علامت پولیس تھانوں کو مکمل طور پر بدل کر خوبصورت ڈرائنگ رومز کی صورت دے ڈالی جہاں نئے شادی شدہ جوڑے جا کر ماڈلنگ کرواتے ہیں اور اپنی تصویریں بنواتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ سلسلہ سابق نگران وزیراعلی پنجاب محسن نقوی کے دور میں شروع ہوا تھا جو اب بھی جاری ہے۔ محسن نقوی کے دور سے لے کر اب تک ڈاکٹر عثمان انور بطور آئی جی پنجاب پولیس کے لیے اتنی فنڈنگ لائے ہیں کہ بھوکی ننگی پنجاب پولیس آج کی امیر ترین فورس بن چکی ہے۔
رمضان پیکج کے نام پر خیبرپختونخواہ میں 10 ارب روپے کی لوٹ مار
تاہم سہیل وڑائچ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پنجاب پولیس کے کچھ اہل ترین افسران کو ترقیاں نہیں ملیں۔ ایسے پولیس افسران میں عامر ذوالفقار، عمران کشور، احمد مکرم اور زبیر ہاشمی بھی شامل ہیں۔ ترقی سے محروم رہ جانے والے عمران کشور نے تو دل برداشتہ ہو کر پولیس سروس سے ہی استعفے دے ڈالا ہے۔ ایسے میں کیا ہی بہتر ہو کہ وزیراعظم حالیہ ترقیوں میں ہونے والی زیادتیوں کے ازالے کے لیے ایک نظر ثانی بورڈ بنا ڈالیں۔ سینیر صحافی کے مطابق انہیں پتہ چلا ہے کہ جن افسروں کو نظر انداز کیا گیا ہے اسکی وجہ انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹس ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس بیورو کی غیر مصدقہ رپورٹس پر سو فیصد انحصار کسی کے کیریئر کا بیڑہ غرق کر دیتا ہے۔ آئی بی کی رپورٹس صرف سنی سنائی باتوں پر بنائی جاتی ہوتی ہے جنکی سرے سے کوئی تصدیق نہیں ہوتی۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ترقیوں کے سارے عمل کی شفافیت کا جائزہ لیا جائے اور حکومتی ڈھانچے کو ماضی، حال اور مستقبل میں چلانے والے افسروں کیساتھ انصاف کیا جائے۔ دوسری طرف ہماری افسر شاہی کو بھی حکمرانوں کی بجائے عوام کی خدمت کا انداز اپنانا چاہیے۔