فوج کا  نئی سیاسی جماعت بنانے کا تجربہ دوبارہ ناکام کیوں ہو گا؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار وجاہت مسعود نے کہا ہے کہ ہماری تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ فوجی نرسری میں کشید کیے جانے والے تیسٹ ٹیوب سیاست دان اور سیاسی جماعتیں تاریخ کے سیلاب کا مقابلہ نہیں کر سکتیں، لہٰذا بہتر ہو گا کہ بار بار کے ناکام تجربات کے بعد اب مذید کوئی سیاسی جماعت یا سیاستدان پیدا کرنے سے اجتناب کیا جائے۔

وجاہت مسعود نے اپنا تازہ سیاسی تجزیہ معروف اینکر پرسن سہیل وڑائج کے اس کالم کے جواب میں لکھا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ نے مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کی ناکامی کے بعد ایک نئی جماعت سیاسی میدان میں اتارنے کا فیصلہ کر لیا ہے جو اگلے انتخابات میں تحریک انصاف اور اس کے بیانیے کو موئثر طریقے سے کاونٹر کر سکے۔

سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ایک کمزور پیپلز پارٹی اور بغیر بیانیے کے نون لیگ سے اسٹیبلشمینٹ کو جس عوامی حمایت کی امید ہے وہ اسے نہیں مل پا رہی، لہازا فوجی قیادت کو یہ بات گراں گزر رہی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ کارکردگی اور بیانیے کے ساتھ ایک نئی لیڈر شپ میدان میں اتاری جائے۔ لیکن اگر اپنی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ماضی کے ایسے تجربات زیادہ تر ناکام رہے ہیں لہذا بہتر ہوگا کہ ناکام تجربات کی تاریخ نہ دہرائی جائے۔

سہیل وڑائچ کے بقول سچ تو یہ ہے کہ اس وقت بھی تحریک انصاف ہی پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی مقبول ترین جماعت ہے، ایسے میں اگر کل الیکشن ہوں تو پی ٹی آئی پورے ملک میں سویپ کر جائیگی، یہ الگ بات ہے کہ تحریک انصاف میں حکومت چلانے کی صلاحیت نہ پہلے تھی نہ اب ہے، اس کے ساتھ ایک ٹھاٹھیں مارتا ہجوم ضرور ہے، لہازا پی ٹی آئی بھی ایک الیکشن تو جیت سکتی ہے مگر اس کے بعد اس کا مستقبل بھی تابناک نظر نہیں آتا۔

بقول سہیل وڑائچ، اگر تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے ہوش سے کام نہ لیا تو ایک نئی سیاسی قوت کا بم کسی بھی وقت ان پر گر پڑے گا کیونکہ فوجی اسٹیبلشمنٹ ایک نئی سیاسی پارٹی یا گروپ کو میدان میں اتارنا ناگزیر سمجھ رہی ہے جو تحریک انصاف کے بیانیے کو اگلے الیکشن میں موثر طریقے سے کاؤنٹر کر سکے۔ میری رائے میں تو ماضی کے ایسے مصنوعی تجربے ناکام ہی ہوتے ہیں، لہازا دیکھے اس بار کیا ہوتا ہے؟

سہیل وڑائچ کی اس سیاسی پیش گوئی کا حوالہ دیتے ہوئے وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ انکی رائے میں ایسا کوئی تجربہ کرنے کی بجائے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے کہ جمہوری عمل کو دستور کے دائرے میں اپنا کام کرنے دے۔ سیاسی تجربے کرنا نہ تو غیر سیاسی اداروں کا دستوری استحقاق ہے، اور نہ ہی ان کی ایسی تربیت ہوتی ہے۔ وجاہت کہتے ہیں کہ پاکستان اور اس کے عوام کے لیے تشویش کا اہم ترین زاویہ یہ ہے کہ ملک میں سیاسی عمل قریب قریب مفلوج ہو چکا ہے اور فوج بے حد مضبوط ہو چکی ہے۔

انکے مطابق سیاسی قوتوں کی یہ کمزوری بذات خود کوئی نیا مظہر نہیں۔ دراصل اس انحطاط کی جڑیں 1945 تک جاتی ہیں۔ تب برطانوی حکمرانوں کی شہ پر سیاسی پناہ گیر ٹھیک اسی طرح مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے جیسے 2011 کے موسم خزاں میں تحریک انصاف کا حصہ بنے تھے۔ پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ کی یہ کمزوری ہی آزادی کے بعد سرکاری اہلکاروں اور موقع پرست سیاسی اشرافیہ کے اس گٹھ جوڑ کا حصہ بنی جس میں بعد ازاں مذہبی قوتوں کو مفید سمجھ کر شامل کیا گیا۔

وجاہت۔مسعود کہتے ہیں کہ ہم نے اس دوران ریپبلکن پارٹی، کنونشن لیگ، قومی اتحاد، آئی جے آئی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف جیسی جماعتوں کو نادیدہ چھتر چھایا تلے بنتے اور ناکام ہوتے دیکھا۔ یہاں فرقہ ورانہ جماعتوں اور متشدد گروہوں کا ذکر جان بوجھ کر نہیں کیا جا رہا۔ اس ملک میں ہمیشہ حقیقی جمہوری قوتوں کو ریاستی جبر کے ذریعے کچلا گیا۔ نتیجہ یہ کہ پاکستسن میں سیاسی قوتیں ہی بے وقعت نہیں ہوئیں، بلکہ ہمارا سیاسی عمل بھی اپنی نامیاتی توانائی سے محروم ہو گیا۔معیشت کے تختے اکھڑ گئے۔

وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ فوج کا ہمہ جہت اختیار ہمارے لیے نیا نہیں لہازا ہم اس کی حرکیات اور نتائج سے بھی خوب آشنا ہیں۔ ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کے بطن سے ناگزیر طور پر سیاسی بحران جنم لیتا ہے اور فوج کے خود کاشتہ پودے تاریخ کے سیلاب کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لہازا ایک جمہوری شہری ہوتے ہوئے میری رائے ہے کہ حقیقی سیاسی استحکام اور پائیدار معاشی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ مضید کسی نئے سیاسی تجربے سے اجتناب کیا جائے۔ شفاف جمہوری عمل کو دستور کے دائرے میں اپنا کام کرنے دیا جائے۔ سیاسی تجربے کرنا نہ تو غیر سیاسی قوتوں کا دستوری استحقاق ہے، نہ انہیں اس کی تربیت ہے اور نہ وہ پاکستان جیسی پیچیدہ سیاسی روایت کو اپنے تابع رکھنے کی اہلیت سے بہرہ مند ہیں۔ برادرم سہیل وڑائچ ایک باخبر صحافی ہیں لیکن ان کی خبر ایک پرانے تجربے کے ناکام اعادے کا اشارہ دے رہی ہے۔

Back to top button