کیا ایلون مسک پاکستان میں رجسٹرڈ اپنی انٹرنیٹ کمپنی چلا لے گا؟

 2024 میں پاکستان کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایپس کی بندش کے سبب ایک ارب 62 کروڑ ڈالر کا نقصان ہو جانے کے بعد معروف امریکی بزنس مین اور ایکس کے مالک ایلون مسک نے اپنی سٹار لنک سیٹلائٹ انٹرنیٹ کمپنی کو پاکستان میں متعارف کروانے کا اعلان کر دیا یے۔ ایلون مسک کی جانب سے سٹارلنک کو سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان میں رجسٹر کروائے جانے کے بعد پاکستانی عوام اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان کا انٹرنیٹ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔

یاد رہے کہ ایلون مسک کی کمپنی سٹارلنک کے اس وقت درجنوں ممالک میں کئی لاکھ صارفین موجود ہیں جن میں بیشتر شمالی امریکہ، یورپ اور آسٹرالایشیا سے ہیں۔ ان میں گھریلو اور کاروباری دونوں طرح کے صارفین موجود ہیں۔ تاہم ایشیا میں پاکستان وہ پہلا ملک ہے جس میں ایلون مسک نے اپنی انٹرنیٹ کمپنی کو متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔

پاکستانی صارفین ہچھلے ایک برس سے انٹرنیٹ سسٹم میں ڈالی جانے والی رکاوٹوں اور سوشل میڈیا پر لگائی گئی بندشوں سے پریشان ہیں جس کے سبب پاکستانی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کو ایک ڈیڈھ ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔ ایسے میں گھریلو اور کمرشل صارفین انٹرنیٹ کی بندش اور ‘ایکس’ جیسی معروف سوشل میڈیا ویب سائٹ کی ملک میں معطلی کے سبب کسی ایسے نئے نظام کی تلاش میں تھے جس کے ذریعے انھیں انٹرنیٹ کی بلاتعطل فراہمی ممکن ہو سکے۔ چنانچہ پاکستانی عوام نے ایلون مسک کی انٹرنیٹ کمپنی کو اپنی تمام تر امیدوں کا مرکز بنا لیا ہے۔

پاکستان میں حکومتی شخصیات اور ادارے انٹرنیٹ کی اس بندش کے متعدد جواز پیش کرتے رہے ہیں۔ کبھی سیاسی احتجاج کے سبب انٹرنیٹ متاثر نظر آتا تھا، تو کبھی زیرِ سمندر انٹرنیٹ کی کسی کیبل میں خرابی کے سبب لوگ انٹرنیٹ سے محروم ہوجاتے تھے اور تو اور کچھ حکومتی شخصیات کی جانب سے سکیورٹی خدشات کو بھی متعدد مرتبہ انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ بتایا گیا۔ ایسے میں متعدد انٹرنیٹ صارفین امریکی کاروباری شخصیت ایلون مسک سے اپیل کرتے ہوئے نظر آئے کہ وہ اپنی سٹارلنک سیٹلائٹ انٹرنیٹ کمپنی کو پاکستان میں متعارف کروائیں۔

ایسے میں یہ سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ یہ کمپنی کتنے عرصے میں پاکستان میں فعال ہوجائے گی اور کیا عام گھریلو صارفین بھی سیٹلائٹ انٹرنیٹ استعمال کر پائیں گے؟ وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ نے تصدیق کی ہے کہ سٹار لنک کو پاکستان میں رجسٹر کر لیا گیا ہے، لیکن انھوں نے کہا کہ ایسی کمپنیوں کے لیے قواعد و ضوابط طے کرنا ضروری ہے۔ انھوں نے بتایا کہ سٹارلنک کے علاوہ دیگر اور سیٹلائٹ کمپنیاں بھی ہیں جو پاکستان میں اپنی سروسز صارفین کو دینا چاہتی ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ریگولیٹری میکن ازم ترتیب دیں جس کے تحت وہ پاکستان میں آپریٹ کرسکیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہم تمام پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے ایک جامع پالیسی تیار کررہے ہیں تاکہ یہ سیٹلائٹس مقامی فری کوئنسی میں مداخلت نہ کر سکیں۔ انھوں مزید کہا کہ جب ریگولیٹری میکن ازم تیار ہو جائے گا تو پھر سٹارلنک جیسی کمپنیوں کو لائسنس کا اجرا شروع ہوجائے گا۔

وفاقی وزیر مملکت برائے آئی ٹی کا کہنا تھا کہ یہ نئی چیز ہے اور آج تک کسی نے بھی دنیا میں لو ارتھ اوربٹ سیٹلائٹ انٹرنیٹ کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی ریگولیشن نہیں بنائے ہیں۔ اس لیے ہماری کوشش ہے کہ ہم پاکستان کے لیے بین الاقوامی معیار کے تحت یہ تمام قوائد اور سسٹم چند ماہ کے اندر اندر ترتیب دے لیں۔ جس کے بعد ہی یہ سٹارلنک یا کوئی اور ایسی کمپنی پاکستان میں آپریٹ کر سکے گی۔’ یاد رہے کہ ایکلون مسک کی سٹارلنک نامہ کمپنی سیٹلائٹس کے ایک وسیع نیٹ ورک کے ذریعے انٹرنیٹ سروس مہیا کرتی ہے۔ کمپنی کے مطابق اس کا مقصد ان افراد کو تیز ترین انٹرنیٹ مہیا کرنا ہے جو زمین کے دور دراز یا دیہی علاقوں میں رہتے ہیں اور انھیں تیز انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں ہے۔

تاہم یہ بتانا ضروری ہے کہ روایتی انٹرنیٹ سروسز کے مقابلے میں سٹارلنک مہنگا ہے۔ صارفین کے لیے اس کی ماہانہ فیس 99 ڈالر ہے، جبکہ انٹرنیٹ کی فراہمی کے لیے استعمال ہونے والی ڈِش اور راؤٹر کی قیمت 549 ڈالر ہے۔ میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی سے منسلک اسد بیگ کہتے ہیں اگر سٹارلنک پاکستان میں اپنی سروس شروع کرتا ہے تو ملک میں انٹرنیٹ کے استعمال کے حوالے سے اور بھی کئی سوالات کھڑے ہو جائیں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ سوال یہ بھی ہو گا کہ ‘سیٹلائٹ انٹرنیٹ تک کس کو رسائی ہوگی اور کس قیمت پر؟ اس کے علاوہ سٹارلنک کی سروسز، سستی نہیں ہیں اور اس کا آنا پاکستان میں ڈیجیٹل تقسیم کو مزید گہرا بھی کر سکتا ہے، جہاں کچھ خاص لوگ اس سے استفادہ اٹھا سکیں اور دوسروں کو وہی خراب انٹرنیٹ سروسز پر انحصار کرنا پڑے گا۔’

دوسری جانب پاکستان میں انٹرنیٹ اور آن لائن مسائل پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ سٹارلنک کے ذریعے بھی شاید ملک میں آزاد انٹرنیٹ کی فراہمی ممکن نہ ہو۔ اس معاملے پر انٹرنیٹ امور کی ماہر نگہت داد کا کہنا تھا کہ عوام تک بغیر کسی رکاوٹ کے انٹرنیٹ کی فراہمی ان کے بنیادی حقوق میں شامل ہے۔ ہمیں ماضی کی مثالوں کو دیکھتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ سٹارلنک یا اس جیسی کمپنیوں کا مستقبل میں کیا بنے گا۔ ویسے تو سیٹلائٹ انٹرنیٹ میں خلل ڈالنا یا رکاوٹ پیدا کرنا مشکل ہے لیکن پھر بھی اہم بات یہ ہے کہ سٹارلنک جیسی کمپنیاں حکومت سے کیا معاہدے کرکے آرہی ہیں۔’ یہاں سب سے بنیادی اور اہم سوال یہ ہے کہ حکومت اور طاقتور حلقے ایسی کمپنیوں کو کن قوائد وضوابط کے تحت پاکستان میں کام کرنے دیں گے۔ اگر تو ان کمپنیوں نے بھی پابندیوں کے تحت ہی انٹرنیٹ کی فراہمی عوام تک پہنچانی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ صارفین کو پہلے سے معلوم ہو کہ انھیں کیا سرورسز ملیں گی اور کیا نہیں ملے گا۔’

Back to top button