نئی ترمیم کے بعد کیا جنرل عاصم منیر بھی 10 سال چیف رہیں گے ؟

فوج سے ریٹائرمنٹ لے کر پہلے صحافی اور پھر سیاستدان بننے والے یوتھیے کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر نے کہا ہے کہ آرمی ایکٹ میں حالیہ ترمیم کے بعد موجودہ آرمی چیف کا بھی جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی طرح 10 سال تک اس عہدے پر برقرار رہنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔

اپنے تازہ تجزیے میں ایاز امیر کہتے ہیں کہ اتحادی حکومت کی جانب سے سروسز چیف کے عہدے کے معیاد تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کا قانون ایک ماسٹر اسٹروک ہے جس سے سارا ٹنٹا ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ ایک تو عمران خان کی اسمبلی تھی جس نے بلاوجہ اور بلاضرورت سروسز چیفس کی توسیع کا باقاعدہ قانون بنایا اور مدت اور توسیع دونوں تین تین سال رکھی۔ لیکن موجودہ حکومت کے ماسٹر اسٹروک میں تین سال کو پانچ سال کر دیا گیا ہے۔ بہت لوگ ابھی تک سمجھ نہیں پا رہے کہ معیاد میں توسیع بھی تین سال سے پانچ سال ہو گئی ہے۔ پانچ اور پانچ کو جوڑیں تو کتنے بنتے ہیں؟ اس کا جواب ہے دس سال!

ایاز امیر کہتے ہیں کہ اتنا یاد دلانا کافی ہے کہ ایوببخان کا دورِ اقتدار دس سال پر محیط رہا‘ ضیا کا ساڑھے گیارہ سال اور مشرف کا نو سال۔ صدر تو یہ سب ہی تھے لیکن اُن کی طاقت کا اصل سرچشمہ اُن کا دوسرا عہدہ یعنی فوجی سربراہ ہونا تھا۔ ایوب نے خود کو فیلڈ مارشل بنا لیا اور موسیٰ خان کو کمانڈر اِنچیف مقرر کیا۔ ایسا تکلف ضیا اور مشرف نے نہیں برتا‘ اور دونوں عہدے اُن کے پاس رہے۔ اب کی بار نظام تھوڑا مختلف ہے‘ اوپر صدر آصف زرداری ہیں لیکن اصل کام دیگر طریقوں سے چل رہا ہے۔ آرمی ایکٹ میں جو ترمیم کی گئی ہے اس سے توسیع کی فکر قومی سوچ سے نکال دی گئی ہے۔ نون لیگی طبلہ نواز صحیح طور پر چہچہا رہے ہیں کہ اس قانون سازی سے ملک میں استحکام آ جائے گا۔ استحکام تو بہت حوالوں سے پہلے بھی تھا‘ بس یوں سمجھنا چاہیے کہ پرانے استحکام کے اوپر ایک بھاری تہہ مزید استحکام کی لگا دی گئی ہے۔

2024 کے الیکشن میں عمران کے ٹکٹ پر ہارنے والے کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر کہتے ہیں کہ اب پارلیمنٹ کا کام آسان ہو گیا ہے۔ اب اس کرنے کو تو اب کچھ باقی رہ بھی نہیں گیا، بس تالیاں بجانا باقی ہے اور وہ کام (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں نہایت خوش اسلوبی سے انجام دے رہی ہیں۔ اب پی ٹی آئی کڑھتی رہے گی۔ مولانا فضل الرحمن سمیٹ لیں جو کچھ سمیٹ سکتے ہیں کیونکہ اب اُن کی افادیت ختم ہو چکی ہے اور کسی نے اُن کے در پر حاضری نہیں دینی۔ جو قانون پاس کرانے تھے وہ ہو چکے ہیں‘ اب دو تہائی اکثریت کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ جو ہونا تھا وہ ہو چکا اور توسیع بارے جو بھی کچھ مطلوب تھا وہ حاصل ہو گیا۔ اب مولانا صاحب اپنے ممبران پاس رکھیں‘ ان کی کسی کو ضرورت نہیں رہی۔

کیا سول مارشل لگنے کے بعد عمران کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوگا ؟

ایاز امیر کہتے ہیں کہ ہاتھ بہتوں کے ساتھ ہو چکا ہے۔ آئین کی بات کو چھوڑیے‘ اس کے ساتھ تو اتنے ہاتھ ہوئے ہیں کہ انکا مزید ذکر کرنا بیکار لگتا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ تو بہت بڑا ہاتھ ہو چکا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج صاحبان کے ساتھ بھی ملاوٹ والا کام ہو گیا ہے‘ نو سے بڑھا کر اُس عدالت کے ججوں کی تعداد بارہ کر دی گئی ہے۔ اب اسلام آبادہائیکورٹ کے جج مزید خط لکھیں کہ اُن کے کام میں مداخلت ہو رہی ہے‘ دیکھتے ہیں ان پر کون غور کرتا ہے۔ قانون سازی ایسی ہوئی ہے کہ یہ سارے قصے تمام ہو گئے ہیں۔ لیکن دیکھا جائے تو اصل ہاتھ قبلہ مولانا کے ساتھ ہوا ہے‘ کہاں وہ تمتما رہے تھے کہ ناگ کے دانت نکال لیے اور کہاں یہ صورت حال کہ کیا عدلیہ‘ کیا پارلیمان‘ کیا سیاست اور کیا قانون کی حکمرانی‘ سب کو اپنی اوقات یاد کرا دی گئی ہے۔ سچ پوچھئے تو ان دنوں میری ہنسی رُک نہیں رہی۔ بشریٰ بی بی کی ضمانت ہوئی تو لوگ کہنے لگے کہ لگتا ہے موسم بدل رہا ہے‘ علیمہ خان اور عظمیٰ خان کی ضمانتیں ہوئیں تو ایسی افواہ سازیوں نے مزید زور پکڑا کہا کچھ ہونے والا ہے۔ خوش فہموں سے کوئی پوچھے کہ پچھلے دو سالوں سے ملک میں جو کچھ ہوا ہے اُس کے بعد کسی خوش فہمی کی گنجائش رہنی چاہیے؟ اقتدار کی جنگوں میں طشتری پر کچھ نہیں پیش کیا جاتا ۔ یہاں پانچ مرلے زمین کا قبضہ آسانی سے نہیں چھوٹتا چہ جائیکہ اقتدار اور حکمرانی پر قبضہ۔

Back to top button