کیا مولانا فضل تحریک انصاف کے ساتھ جپھی ڈالنے کا رسک لیں گے؟

مولانا فضل الرحمن کو حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد کا حصہ بنانے کے لیے کوشاں تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کے اپنے متضاد بیانات ہی ایسی کوششوں پر پانی پھیرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم مبصرین کے مطابق حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بڑھتے تناؤ اور ٹکراؤ کے باوجود مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ وہ آنے والے سیاسی حالات میں اپنا سیاسی وزن کس پلڑے میں ڈالیں گے ۔

سینئر صحافی سلمان غنی کے مطابق بظاہر تو مولانا فضل الرحمن حکومتی ساکھ پر بڑے اعتراضات اٹھا کر اس حکومت کے خاتمے اور نئے انتخابات کی بات کرتے نظر آتے ہیں لیکن دوسری جانب وہ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے ڈیڈ لاک کے بھی خلاف ہیں اور مذاکرات اور ڈائیلاگ کو ہی سیاسی مسائل کا حل سمجھتے ہیں ۔ اسی وجہ سے مولانا حکمران اتحاد سے اپنے راہ و رسم بحال رکھے ہوئے ہیں ، تاہم دوسری جانب پی ٹی آئی رمضان المبارک کے بعد حکومت مخالف بڑی عوامی احتجاجی تحریک چلانے کی دھمکیاں دیتی نظر آتی ہے۔ تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اپوزیشن اتحاد عید الفطر کے بعد کسی بڑی احتجاجی تحریک کی پوزیشن میں ہے ، کیا پی ٹی آئی مولانافضل الرحمن کو اس کا حصہ بننے پر قائل کر پائے گی ؟۔

تجزیہ کاروں کے مطابق جہاں تک اپوزیشن کی جانب سے عیدالفطر کے بعد اے پی سی بلانے اور حکومت مخالف تحریک چلانے کا تعلق ہے تو اس سے پہلے بھی اپوزیشن کی جانب سے کچھ روز قبل اسلام آباد میں کانفرنس کا انعقاد ہوا مگر اسے نتیجہ خیز قرار نہیں دیا جاسکتا ۔کانفرنس کے حوالے سے جے یو آئی نے اپنے تحفظات بھی ظاہرکئے اور اعلامیہ پر دستخط بھی نہیں کئے اس دوران مولانافضل الرحمن ملک سے باہر تھے لیکن مولانا فضل الرحمن کے وطن واپسی کے بعد پھر سے مولانا فضل الرحمن سیاسی محاذ پر غالب آگئے اور ان کی قومی اسمبلی میں تقریر سمیت مختلف مواقع پر خطابات اور  ملکی سلامتی کو در پیش خطرات اوردہشت گردی کے رجحانات پر ان کی جانب سے آنے والے ردعمل کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا جاسکتا ہے ۔

مبصرین کے مطابق مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کا حکومت مخالف تحریک کا حصہ بننے کا انحصار خود ان سے زیادہ حکومت پر ہوگا ، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمن کسی بھی صورت میں ایسے کسی بھی اپوزیشن اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے ، جہاں حتمی اختیاربانی پی ٹی آئی کے پاس ہو کیونکہ خود مولانا فضل الرحمن کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو یک بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ مولانا حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں وہ اپنا بڑا کردار چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ خود بانی پی ٹی آئی کے خلاف تحریک کیلئے جب پی ڈی ایم تشکیل دیا گیا تو مولانا فضل الرحمن اس کے سربراہ بنے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی میں کوئی اتحاد اس لئے بھی ممکن نہیں کہ دونوں جماعتوں کا تعلق پختونخوا سے ہے ، جے یو آئی کی پارلیمانی کیفیت کو نقصان پی ٹی آئی کی وجہ سے پہنچا ۔البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے درمیان تناؤ کی کیفیت میں مولانا فضل الرحمن مفاہمت یا ڈائیلاگ میں کردار ادا کرسکتے ہیں ۔دوسری جانب پی ٹی آئی کے ذمہ دار ذرائع یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت مخالف تحریک میں مولانا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ پی ٹی آئی نے اس حوالے سے قومی اسمبلی میں اسد قیصر کو مشن سونپ رکھا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو ہر قیمت پر ساتھ ملایا جائے ، لیکن اسد قیصر اس مشن میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکے ہیں ۔حکومت اور اپوزیشن سمیت کوئی بھی حتمی طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ آخر مولانا فضل الرحمن کس کے ساتھ ہیں۔

مبصرین کے مطابق تحریک انصاف اس وقت ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ شہباز شریف کی اتحادی حکومت کے خلاف ایک بڑا اپوزیشن الائنس بنانے کی کوششوں میں ابھی تک ناکام رہنے کی ایک بڑی وجہ عمران خان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ متھے بازی کی پالیسی ہے۔ عمران کا خیال ہے کہ وہ اپنی اسٹیبلشمنٹ مخالف پالیسی سے فوجی قیادت کو دباؤ میں لانے میں کامیاب ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں انہیں جیل سے رہائی مل جائے گی، تاہم ان کی اس پالیسی کا الٹا اثر ہوا ہے اور ان کی سٹریٹ پاور ختم ہو جانے کے بعد اب انکا جیل سے باہر آنے کا امکان مزید معدوم ہو گیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی کے 26 نومبر کے احتجاجی دھرنے کی ناکامی کے بعد سے عمران خان نے اپنی پارٹی قیادت کو اپوزیشن جماعتوں کا ایک اتحاد تشکیل دے کر حکومت کے خلاف مشترکہ تحریک چلانے کا ٹاسک دے کھا ہے۔ اس سلسلے میں تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے سب سے زیادہ زور مولانا فضل الرحمن کو اپنا ساتھی بنانے پر لگایا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کے داخلی تضادات اور سیاسی مہارت کے فقدان نے ان کوشش کو خراب کر دیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی جمعیت علمائے اسلام سے مفاہمت کی کوششیں اس کی اپنی قیادت کے متضاد بیانات کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہیں۔

ملک دشمن پروپیگنڈہ : علیمہ خان بیرون ملک اکاؤنٹس چلاتے پکڑی گئیں

 سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ سیاست میں دوست بنانے کا یہ طریقہ کارگر نہیں ہوتا۔ سیاست دراصل ممکنات کا کھیل ہے، جو مفاہمت اور سفارت کاری سے ہی جیتا جاتا ہے، نہ کہ دھمکیوں اور زبردستی سے۔ اگر پی ٹی آئی واقعی چاہتی ہے کہ جے یو آئی یا اپوزیشن کی کوئی اور جماعت اس کے ساتھ کھڑی ہو، تو اسے دباؤ کی پالیسی چھوڑ کر معنی خیز مذاکرات کا راستہ اپنانا ہوگا، نہ کہ تحقیر آمیز بیانات اور جارحانہ طرزِ عمل۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ جے یو آئی کے بغیر کوئی بھی اپوزیشن اتحاد نامکمل ہو گا، کیونکہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت عوامی طاقت کے علاوہ احتجاجی تحریک کو منظم انداز میں چلانے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔

مبصرین کے مطابق مولانا فضل الرحمن کے پی ٹی آئی کے ساتھ کھل کر کھڑا ہونے سے احتراز برتنے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب پی ٹی آئی قیادت کو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کوئی مثبت اشارہ نہیں مل رہا، اپوزیشن اتحاد بکھر چکا ہے، اور بین الاقوامی سطح پر بھی کوئی مدد حاصل نہیں ہو رہی، ایسے حالات میں پی ٹی آئی کے پاس کیا راستے باقی بچا ہے؟ تجزیہ کار کہتے ہیں موجودہ حالات میں عمران خان کو اپنی حکمتِ عملی پر نظرثانی کرنا ہو گی۔ اگر عمران خان نے اب بھی حقیقت پسندانہ رویہ اپنا لیا اور سنجیدہ مذاکرات کی طرف آ گئے، تو یہ صرف پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لیے بھی بہتر ہوگا، لیکن اگر وہ اپنی ضد پر اڑے رہے تو پھر نہ انکا کوئی مستقبل ہے اور نہ ہی انکی تحریک انصاف کا۔۔۔۔

Back to top button