کیا صدر زرداری KPمیں گورنر راج لگا کر ہیٹ ٹرک مکمل کریں گے؟

خیبرپختونخوا گورنر راج کی قیاس آرائیوں کا سلسلہ جو کافی دنوں سے جاری تھا تاہم اسلام آباد میں احتجاج کے دوران پیش آنے والے خونی واقعات اور وزیر اعلٰی علی امین گنڈاپور کی بڑھتی ہوئی سر کشی کے بعد خیبرپختونخوا میں گورنر راج کے نفاذ کی افواہوں میں شدت آگئی ہے اور قیاس کیا جا رہا ہے کہ2 بار گورنر راج نافذ کرنے والے صدر زرداری خیبرپختونخوا میں گورنر راج نافذ کر کے ہیٹرک مکمل کرلیں گے تاہم مبصرین کے مطابق 18ویں آئینی ترمیم کے بعد کسی بھی صوبے میں گورنر راج کا نفاذ اتنا آسان نہیں رہا۔

خیال رہے کہ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ پاکستان کے کئی صوبوں میں گورنر راج نافذ کیے گئے۔ 25 فروری 2009 کو اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سفارش پر آئین کے آرٹیکل 237 کے تحت صدر آصف علی زرداری نے شہباز شریف کی حکومت کے خلاف دو ماہ کے لیے گورنر راج نافذ کیا تھا۔اس کے بعد مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی تاہم مسلم لیگ ن کے لانگ مارچ اور ججز کی بحالی کے بعد گورنر راج ختم کر دیا گیا تھا۔

پنجاب میں پیپلز پارٹی کی جانب سے مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف گورنر راج کے نفاذ کے بعد آئین میں ترمیم کی گئی تھی اور آرٹیکل 232 کے تحت اس امر کو یقینی بنایا گیا تھا کہ صوبائی حکومت کی مرضی کے بغیر گورنر راج نافد نہ ہو۔

اس کے بعد بلوچستان میں جنوری 2013 میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے صوبائی حکومت ختم کر کے آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت وہاں گورنر راج نافذ کیا تھا۔بلوچستان میں گورنر راج نافذ کرنے کی وجہ کوئٹہ میں شیعہ مظاہرین کا دھرنا تھا جو انھوں نے دو خودکش حملوں میں اپنے برادری کے ایک سو زائد افراد کی ہلاکت کے بعد دیا تھا۔  اب افواہیں گرم ہیں کہ صدر آصف علی زرداری خیبرپختونخوا میں گورنر راج نافذ کر کے ہیٹرک مکمل کرسکتے ہیں۔ تاہ۔۔مبصرین کے مطابق خیبرپختونخوا میں فوری گورنر راج کے نفاذ کے امکانات معدوم ہیں تاہم اگر گنڈاپور سرکار انتشار سے باز نہ آئی تو وفاقی حکومت یہ انتہائی اقدام اٹھانے پر بھی مجبور ہو سکتی ہے۔

تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ گورنر راج ہوتا کیا ہے اور آئین میں گورنر راج کے نفاذ کا کیا طریقہ کار درج ہے؟ قانونی ماہرین کے مطابق گورنر راج دراصل کسی صوبے کا نظام حکومت براہ راست وفاقی حکومت کے سپرد کرنے کا نام ہے۔صوبائی گورنر وفاقی حکومت کے نمائندے ہوتے ہیں جنہیں وزیراعظم کی ہدایت پر صدرِمملکت براہ راست تعینات کرتا ہے۔ گورنر راج میں صوبے کے تمام اختیارات وزیر اعلی سے لے کر گورنر کے سپرد کر دئیے جاتے ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 32، 33 اور 34 میں گورنر راج کے حوالے سے وضاحت کی گئی ہے۔ گورنر راج کے دوران بنیادی انسانی حقوق بھی معطل کر دیے جاتے ہیں اور صوبائی اسمبلی کے اختیارات قومی اسمبلی اور سینیٹ کو تفویض کردیے جاتے ہیں۔

کسی صوبے میں ایمرجنسی کی صورت میں گورنر راج نافذ کیا جا سکتا ہے مگر 18ویں ترمیم کے تحت گورنر راج کے نفاذ کو صوبائی اسمبلی کی منظوری سے مشروط کر دیا گیا ہے جس کے بعد وفاقی حکومت کے لیے آسان نہیں کہ کسی صوبے میں مخالف جماعت کی حکومت کا اثر ختم کرنے کے لیے گورنر راج نافذ کرے۔

آئین کی شق 232 کے مطابق اگر ملک کی سلامتی جنگ یا کسی اندرونی اور بیرونی خدشے کے پیش نظر خطرے میں ہو اور اس کا سامنا صوبائی حکومت نہ کر سکتی ہو تو صدر مملکت ایمرجنسی نافذ کر کے گورنر راج لگا سکتے ہیں۔

تاہم اس کی شرط یہ ہے کہ متعلقہ اسمبلی اس کی سادہ اکثریت سے قرارداد کے ذریعے منظوری دے۔ اگر متعلقہ اسمبلی سے منظوری نہ ملے تو پھر 10 دن کے اندر اس کی قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔

گویا اس شق کے بعد خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگانا تقریباً مشکل ہے کیونکہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کی اکثریت ہے جو اس کے خلاف ہے۔

ہنگامی حالت کے نفاذ کے لیے صوبائی اسمبلی کی قرارداد صدر کو بھیجی جائے گی۔ اگر صدر خود ہنگامی حالت نافذ کرتا ہے تو پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے سامنے توثیق کے لیے پیش کرنے کا پابند ہو گا۔

تاہم مبصرین خیبرپختونخوا میں گورنر راج کے نفاذ کو تباہ کن قرار دیے رہے ہیں۔ وفاقی حکومت اگر گورنر راج لگانے کا فیصلہ کرتی ہے تو مستقبل کا ممکنہ منظرنامہ کیا ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’اگر ایسا ہوا تو اوپن سول وار ہو گی کیونکہ یہ تو حقیقت ہے کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف مقبول ترین سیاسی جماعت ہے۔‘اگر خیبرپختونخوا میں گورنر راج لگایا گیا تو یہ ملک کی سالمیت کے لیے شدید تباہ کن اقدام ہو گا۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’اس کی وجہ سے نفرت مزید بڑھے گی اور ملک میں بیگانگی میں اضافہ ہو گا۔‘

تحریک انصاف والے عمران کے منہ پر کون سا سچ بولنے سے ڈرتے ہیں ؟

قانونی ماہرین کے مطابق ’کسی بھی صوبے میں گورنر راج لگانے کے لیے وہاں کی اسمبلی کی قرارداد منظور ہونا لازم ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’ان حالات میں مشکل لگتا ہے کہ وفاقی حکومت گورنر راج لگا سکے گی۔ اگر ایسا ہو گا تو سیاسی ماحول مزید تلخ ہو جائے گا۔‘

Back to top button