کیا پی ٹی آئی پاکستان میں بنگلہ دیش جیسا انقلاب لانے میں کامیاب ہو گی؟
24 نومبر کو پی ٹی آئی کی فائنل احتجاج کی کال کے بعد اسلام آباد پر دھاوا بولنے، ملک کے تمام بڑے شہروں کو جام کرنے اور پاکستان میں بنگلہ دیش جیسا انقلاب برپا کر کے حکومت کو گھر بھجوانے سمیت مختلف حوالوں سے بلند و بانگ دعووں کا سلسلہ جاری ہے۔ عمران خان کی رہائی سمیت مختلف مطالبات کیلئے کئے جانے والے احتجاج سے قبل یہ دعوی بھی کیا جا رہا ہے کہ یوتھیے مطالبات پورے ہونے تک گھروں کو واپس نہیں آئینگے۔ تاہم زمینی حقائق پی ٹی آئی قیادت کا منہ چڑاتے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ احتجاج اور دھرنے کے حوالے سے نہ عمرانڈو قیادت یکسو ہے اور نہ ہی اس بار کارکنان سڑکوں پر آنے کیلئے آمادہ ہیں ایسی صورت میں پی ٹی آئی کے اسلام آباد پر حملہ آور ہو کر وفاقی دارالحکومت کو یرغمال بنا کر بنگلہ دیش جیسا انقلاب لانے کے دعوے ایک دیوانے کا خواب نظر آتے ہیں۔
تاہم یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خیبرپختونخوا کے بلوں میں چھپی بیٹھی پی ٹی آئی کی قیادت اس بار ملک گیر احتجاج کو کامیاب بنا پائے گی، تحریک انصاف کے لئے اسلام آباد میں دھرنا دینا کس حد تک ممکن ہے؟ اور اگر پی ٹی آئی احتجاج میں ناکام ہوگئی تو اس کے پارٹی پر کیا اثرات ہوں گے؟
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئےسیاسی تجزیہ کار ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے احتجاج کی تاریخ دئیے جانے کے باوجود پارٹی قیادت اور کارکنان کے درمیان اتحاد و اتفاق نظر نہیں آتا، کیونکہ حکمت عملی واضح نہیں ہے، اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ احتجاج کامیاب ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کی جانب سے جو مطالبات سامنے آئے ہیں ان پر حکومت کو منوانا خاصا مشکل ہوگا، کیونکہ ان میں سے کوئی ایک مطالبہ بھی ماننے کی صورت میں حکومت کی شفافیت پر مزید سوالیہ نشان پیدا ہوجائیں گے۔
ماجد نظامی نے کہاکہ بھاری بھر کم مطالبات، قیادت اور کارکنوں میں عدم اتفاق کی وجہ سے لگ رہا ہے کہ یہ احتجاج بھی ماضی کی طرح ختم ہوجائے گا اور پی ٹی آئی کو کوئی کامیابی نہیں ملے گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ اپوزیشن کارکنوں کو پُرامید رکھنے کے لیے حکومت پر دباؤ برقرار رکھتی ہے، لیکن تحریک انصاف گزشتہ 6 ماہ کے دوران کوئی کامیاب احتجاج نہیں کرسکی جس کی مختلف وجوہات ہیں۔انہوں نے کہاکہ اب مزید احتجاج کرنے سے بھی کوئی اثر نہیں ہوتا تو اس سے حکومت پر دباؤ کا اثر ختم ہوجائے گا اور پی ٹی آئی کے کارکنان مایوسی کا شکار ہوجائیں گے۔
تجزیہ کار احمد ولید کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ عمران خان نے اس تحریک میں’ڈو آر ڈائی‘ والی کال دی ہے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ فائنل کال ہے، تاہم حکومت عزائم کو دیکھا جائے تو بہت مشکل نظر آرہا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت بھی ڈی چوک میں داخل ہوسکے گی اور دھرنا دے سکے گی۔انہوں نے کہاکہ 2014 میں جب پی ٹی آئی نے دھرنا دیا تو انہیں اسٹیبلشمنٹ کی پوری حمایت حاصل تھی، اور طاہر القادری بھی ان کے ساتھ تھے، تاہم اس بار صورت حال مختلف ہے۔ جیسے گزشتہ بار چند لوگ ڈی چوک پہنچ پائے اور واپس چلے گئے اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ عمران خان نے جو مطالبات رکھے ہیں وہ پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے، عمران خان کی رہائی اور مینڈیٹ کی واپسی کا مطالبہ پورا ہونا ناممکن ہے، کیونکہ اس بار اسٹیبلشمنٹ کا موڈ بالکل مختلف ہے۔تجزیہ کار نے کہاکہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو بات چیت کی آفرز کرچکے ہیں لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آرہا، چھوٹی موٹی باتوں پر علی امین گنڈاپور کی اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت ہوجاتی ہے، تاہم عمران خان کے کیسز سمیت دیگر اہم مطالبات پر کوئی بریک تھرو ہوتا نظر نہیں آرہا۔
بشریٰ بی بی نے بھی گنڈا پور والی فسادی سیاست شروع کر دی
احمد ولید نے کہاکہ پی ٹی آئی تو پورے ملک سے لوگوں احتجاج میں نکالنا چاہے گی لیکن پنجاب کی صورت بہت مختلف ہے کیونکہ وہاں پارٹی قیادت بھی اختلافات کا شکار ہے۔انہوں نے کہاکہ جب بھی اسلام آباد میں احتجاج ہوا خیبرپختونخوا سے ہی کارکنان نے شرکت کی، لیکن اس بار بہت مشکل ہوگا، کارکنوں کو بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا، بڑی شاہراہوں سمیت موٹروے بھی بند ہوگا، جس کے باعث لگتا نہیں کہ پی ٹی آئی مقاصد میں کامیاب ہوسکے کیونکہ پی ٹی آئی کا ٹریک ریکارڈ رہا ہے کہ یہ اسلام آباد میں بڑا مجمع لانے میں کامیاب نہیں ہو پائے لگتا ہے اس بار بھی بات چیت کے ذریعے کوئی راستہ نکالا جائے گا کہ پی ٹی آئی احتجاج بھی کرلے اور واپس بھی چلی جائے، تاہم زمینی حقائق سے لگتا نہیں ہے کہ تحریک انصاف دھرنا دینے کی پوزیشن میں ہے‘۔انہوں نے کہاکہ اسلام آباد میں دھرنے کے معاملے پر پی ٹی آئی قیادت خود الجھن کا شکار ہے، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور تو بہت پرجوش ہیں لیکن ان کے بیانات، پھر دوسری جانب بیرسٹر گوہر اور شیر افضل مروت کا مؤقف دیکھیں تو ان میں کوئی تال میل نظر نہیں آتا۔انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی ایک جانب احتجاج کرکے حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے تو دوسری جانب امریکیوں سے مدد حاصل کررہی ہے، جبکہ یہی عمران خان ماضی میں کہتے رہے ہیں کہ انہیں امریکی سازش کے ذریعے اقتدار سے نکالا گیا، اب جب وہ انہی امریکیوں سے مدد کا سوال کررہے ہیں کہ انہیں جیل سے نکلوایا جائے تو اس پر بھی ان کے کارکنان برہم نظر آتے ہیں۔