کیااسٹیبلشمنٹ عمرانڈوزججزکازہرنکالنے میں کامیاب ہو جائے گی ؟

کیااسٹیبلشمنٹ عمرانڈوزججزکازہرنکالنے میں کامیاب ہو جائے گی ؟سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت تحریکِ انصاف پر پابندی لگانے کے حکومتی فیصلے کے بعد جہاں ایک طرف حکومتی وزرا اور مسلم لیگ ن کے رہنما تحریک انصاف پر ’انتشار کی سیات کرنے‘ کا الزام لگارہے ہیں وہیں بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس حکومتی اعلان کا واحدمقصد پی ٹی آئی پر دباؤ بڑھانا ہے حالانکہ حکومت بھی یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ نہ تو وہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی عدالتوں میں موجود عمرانڈو ججز حکومت کو اس مشن میں کامیاب ہونے دینگے۔ تاہم شہباز حکومت کی جانب سے اس فیصلے کے بعد لگتا ہے کہ نون لیگ اور عمرانڈو ججز کی کھلی جنگ شروع ہو چکی ہے تاہم یہ تو آنے ولاا وقت ہی بتائے گا کہ اس جنگ میں جیت کس کی ہو گی۔

خیال رہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب تین دن قبل پاکستان کی سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو ایک پارلیمانی جماعت تسلیم کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا ہے کہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جائیں۔تاہم سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف حکومت نے نظرِ ثانی کی اپیل دائر کر دی ہے۔

تاہم حکومتی فیصلے کے بعد یہاں کچھ سوالات جنم لیتے ہیں کہ حکومت کو پی ٹی آئی پر بطور سیاسی جماعت پابندی لگانے کی ضرورت کیوں پڑی، اس کے ملکی سیاست پر کیا اثرات ہوں گے اور کیا عمران خان کی جماعت پر پابندی لگانا ممکن ہے بھی یا نہیں؟

وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ کے مطابق نو مئی کے حملے، سائفر کے معاملے اور امریکہ میں قرارداد سمیت ایسے شواہد موجود ہیں جن کی بنیاد پر پی ٹی آئی پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔وزیرِ اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت پی ٹی آئی پر آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت پابندی عائد کرے گی۔

خیال رہے کہ آرٹیکل 17 کے مطابق پاکستان کی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ایسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کر سکتی ہے جو پاکستان کی ’خودمختاری اور ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہو۔‘سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج شائق عثمانی نے اس حوالے سے بتایا کہ ’آئین کا آرٹیکل 17 یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت پاکستان کی خودمختاری یا ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہو تو اس سیاسی جماعت پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔’اس کے لیے حکومت کو کابینہ کے فیصلہ کے بعد 15 دنوں میں سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس دائر کرنا ہوتا ہے۔‘ان کے مطابق اگر سپریم کورٹ یہ سمجھتی ہے کہ حکومت کے پاس موجود ثبوت کارروائی کے لیے کافی ہیں تو وہ الیکشن کمیشن کو حکم دے سکتی ہے کہ اس سیاسی جماعت کو تحلیل کر دیا جائے۔تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ اور آئی ایم ایف کو لکھے گئے خط کو بنیاد بنا کر پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی بات کی جا رہی ہے، ’لیکن میں نہیں سمجھتا کہ یہ وجوہات کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کے لیے کافی ہیں۔‘

’جہاں تک بات رہی 9 مئی اور غیر ملکی فنڈنگ کے مقدمات کی تو یہ تمام کیسز ابھی عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔‘تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے جا رہی ہے تو ہو سکتا ہے ان کے پاس مزید کوئی ثبوت بھی ہوں کیونکہ حکومت تمام باتیں تو میڈیا پر آ کر نہیں کرتی۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان میں الیکشن قوانین کے مطابق اگر کوئی سیاسی جماعت تحلیل کر دی جائے تو اس کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی بھی اسمبلیوں کی بقیہ مدت کے لیے نااہل ہو جاتے ہیں۔

پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی لگانا ایک لمبا عمل ہے۔ ’ابھی تو یہ معاملہ کابینہ میں جائے گا، حکومت یہ بھی دیکھے گی کہ اس کے اتحادی اس فیصلے پر کیا عمل دیتے ہیں۔‘تجزیہ کار مظہر عباس کے مطابق عدالتوں سے عمران خان کو مسلسل ملنے والے ریلیف کی وجہ سے وفاقی حکومت عدلیہ سے خوفزدہ ہے۔ اگرچہ حکومت عدالتوں سے خائف ہے تو تب بھی پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا معاملہ جانا تو سپریم کورٹ ہی ہے۔‘

دیگر تجزیہ کار بھی سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے حوالے سے دیے گئے فیصلے کے بعد حکومت کی حکمت عملی یہ ہے کہ اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ واپس لی جائے۔حکومت اس فیصلے پر نظرِثانی کی اپیل کر رہی ہے اور پی ٹی آئی کو آرٹیکل 6 اور پابندی جیسے قانونی معاملات میں اُلجھانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

تاہم یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہی ٹی آئی پر پابندی کے حوالے سے فیصلے بارے حکومت نے اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لیا ہے؟ اگرچہ وزیرِ اطلاعات کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ انھوں نے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے حوالے سے اپنے اتحادیوں کو اعتماد لیا ہے۔ تاہم پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم حکومت کی جانب سے ایسے کسی بھی فیصلے میں مشاورت سے انکاری ہیں اور وہ اس فیصلے پر کھل کر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کے مطابق ’اگر مان لیا جائے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگ جاتی ہے تو وہ نئے نام سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گے، ایسی مثالیں ہمیں تاریخ میں ملتی ہیں۔‘ مبصرین کے بقول موجودہ صورتحال میں تمام فریقین رسہ کشی میں مصروف ہیں۔’ہر فریق سیاسی اور غیر سیاسی اپنی سبقت بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔‘ان کے مطابق پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے پیچھے ارادہ جماعت پر دباؤ بڑھانا اور انھیں اُکسانا ہے۔’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت چلانے والوں نے سیاسی طور پر جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا تاکہ بیانیہ بنانے کے محاذ پر بھی پی ٹی آئی کو پیچھے دھکیلا جا سکے۔‘

تجزیہ کار اور سینئر صحافی نصرت جاوید کا ہے کہ تحریکِ انصاف پر پابندی کا فیصلہ انتہائی عجلت اور غصے میں لیا گیا فیصلہ لگتا ہے۔ نصرت جاوید کا کہنا تھا کہ چند روز قبل ہی سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں تحریکِ انصاف کا وجود تسلیم کر چکی ہے۔ لہذٰا تحریکِ انصاف کے خلاف حکومت جو بھی چارج شیٹ تیار کرے گی تاہم اسے سپریم کورٹ میں ثابت کرنا مشکل ہو گا۔

صحافی شہزاد اقبال کے مطابق جمہوری دور میں آمرانہ فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ ایک طرف معیشت کا برا حال ہے، عوام مہنگائی میں پس چکے ہیں مگر حکومت کا فوکس پی ٹی آئی پر پابندی لگانے، صنم جاوید اور عمران خان کو گرفتار کرنے پر ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی اصل لڑائی پی ٹی آئی سے نہیں عدلیہ سے ہے۔

سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ کسی جماعت پر پابندی لگا دینے سے اس جماعت کی قیادت کو ختم نہیں کیا جا سکتا، انہوں نے مزید کہا کہ یہ تاریخ کا وہ سبق ہے جو پیپلز پارٹی کو سمجھ آ چکا ہے لیکن مسلم لیگ ن کو ابھی سمجھ نہیں آیا۔

حکومتی فیصلے بارے ایم کیو ایم لندن کے رہنما مصطفیٰ عزیز آبادی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے جیسے فیصلوں سے سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں پر تو پابندی لگائی جاسکتی ہے لیکن عوامی سیاست ختم نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے مسلم لیگ ن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے دامن پر ایک یہی داغ باقی تھا آج وہ بھی لگوالیا، ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ کیا عوام اس فیصلے کو مانیں گے؟

Back to top button