کیا حکومت آئینی ترامیم OIC کانفرنس سے پہلے منظور کروائے گی؟
معروف صحافی انصار عباسی نے کہا ہے کہ بظاہر تو اتحادی حکومت کی جانب سے آئینی ترامیم کا پیکج شنگھائی تعاون کانفرنس کے انعقاد کے بعد اکتوبر کے آخری ہفتے میں منظوری کے لیے پیش کیے جانے کی باتیں چل رہی ہیں لیکن اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کام او آئی سی کانفرنس سے پہلے ہی کر لیا جائے۔ ان کے مطابق یہ تاثر اس لیے مضبوط ہوا ہے کہ حکمران اتحادی جماعتوں کے جو ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ اس وقت بیرون ملک ہیں، انہیں جلد از جلد پاکستان واپس آنے کو کہہ دیا گیا ہے۔ دوسری جانب ملک میں موجود حکومتی ارکان پارلیمنٹ کو بیرون ملک جانے سے منع کیا گیا ہے اور حکومتی ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز کے غیر ملکی سرکاری دورے منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی قیادت میں ارکان پارلیمنٹ کا ایک وفد ہفتے کے آخر میں جنیوا کا دورہ کرنے والا تھا لیکن انہیں بھی جانے سے روک دیا گیا ہے۔ وفد کے دورے کی باضابطہ منسوخی ایک یا دو روز میں متوقع ہے۔ حکومت وفاقی آئینی عدالت کے قیام، اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے تقرر کے عمل میں اصلاحات اور دیگر کیلئے آئینی ترامیم کی منظوری کیلئے دوسری اور فیصلہ کن کوششوں میں مصروف ہے۔
انصار عباسی کے مطابق حکمران جماعت کے کسی رکن پارلیمنٹ نے یہ نہیں بتایا کہ آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کب پیش اور منظور کیا جائے گا۔ زیادہ تر ارکان پارلیمنٹ کو توقع ہے کہ یہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے 16 اکتوبر کو اختتام کے فوراً بعد ممکن ہے لیکن ایسا 16؍ اکتوبر سے قبل بھی ہو سکتا ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت آئینی ترامیم کا پیکج با آسانی منظور کروا لے گی لہازا دو تہائی اکثریت کے حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ آئینی ترامیم کسی بھی وقت کی جا سکتی ہیں لیکن 15؍ اور 16؍ اکتوبر کو ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے فوراً بعد آئینی ترامیم کیے جانے کے زیادہ امکانات ہیں۔
خیال رہے کہ آئینی عدالتوں کے قیام سمیت عدالتی اصلاحات پر مبنی 26ویں آئینی ترمیم کا مسودہ حکومت نے تیار کر رکھا ہے، تاہم ترمیم کی منظوری کے لیے مطلوبہ نمبر پورے نہ ہونے اور اتحادی جماعتوں کے تحفظات کی وجہ سے ستمبر میں ترمیم پارلیمنٹ میں پیش نہ کی جا سکی تھی، اب سپریم کورٹ آف پاکستان سے آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کے بعد کہا جا رہا ہے کہ مطلوبہ نمبر حاصل ہو گئے ہیں اور آئینی ترمیم ایس سی او کانفرنس کے بعد منظوری کیلئے پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی۔ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو قومی اسمبلی کے 336 کے ایوان میں 224 اور سینیٹ کے 96 کے ایوان میں 64 ارکان کی حمایت درکار ہے، جبکہ اس وقت قومی اسمبلی میں 214 اور سینیٹ میں 54 ارکان کی حمایت حاصل ہے، قومی اسمبلی میں مزید 10 اور سینیٹ میں 10 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن اگر مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ جاری کر دیتا ہے اور پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں دی جاتیں تو قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو جمیعت علمائے اسلام کی حمایت کے بغیر بھی دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی اور کل نشستوں کی تعداد 230 ہو جائے گی، جبکہ 336 کے ایوان میں دو تہائی اکثریت کے لیے 224 ارکان کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔اگر پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں دیگر پارٹیوں میں تقسیم نہیں کی جاتیں تو اس صورت میں جمعیت علمائے اسلام کی 8 نشستوں اور 2 پی ٹی آئی یا دیگر ارکان کی حمایت سے حکومت مطلوبہ نمبرز حاصل کر لے گی اور آئینی ترمیم منظور کرا لی جائے گی۔