مقبوضہ کشمیر: 8 ماہ بعد فاروق عبداللہ کی نظر بندی ختم

بھارت نے 8 ماہ بعد مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلی فاروق عبداللہ کی نظر بندی کردی۔واضح رہے کہ بھارت نے گزشتہ برس 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر کے متعدد حریت پسند رہنماؤں سمیت نئی دہلی پارلیمنٹ کے اراکین کی نظر بندی کا حکم دے دیا تھا۔
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق نئی دہلی کی جانب سے فاروق عبداللہ کی نظربندی ختم ہونے کے بعد انہوں نے کہا کہ ‘آج وہ آزاد ہو گئے ہیں اور اب نئی دہلی جا کر پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کے عوام کے حق کے لیے بات کریں گے ، انہوں نے مزید کہا کہ ‘لیکن یہ آزادی مکمل آزادی نہیں ہے۔فاروق عبداللہ نے کہا کہ ‘میری آزادی کے لیے آواز اٹھانے والوں کا شکریہ لیکن یہ آزادی ابھی مکمل نہیں ہے جب تک دیگر تمام زیر حراست بھی آزاد نہ کردیے جائیں اور اس وقت تک ان کی رہائی کے لیے سیاسی جدوجہد کرتا رہوں گا۔
فاروق عبداللہ کی رہائی کے بعد نیشنل کانفرنس نے اعلامیہ جاری کیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ بھارت دیگر سیاسی رہنماؤں بشمولی پارٹی کے نائب صدر اور سابق وزیراعلیٰ عمر اللہ کا بھی نظر بندی ختم کرے۔علاوہ ازیں فاروق عبداللہ کی صاحبزادی صفیہ عبداللہ خان نے والد کی رہائی پر خوشی کا اظہار کیا۔انہوں نے ٹوئٹ میں کہا کہ ‘میرے میرے دوبارہ آزاد انسان ہیں ، بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد مقبوضہ وادی کے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ سمیت کو نظر بند کردیا گیا تھا جس کے بعد سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا جاوید نے کہا تھا کہ بھارتی حکومت نے ان کی والدہ کو گرفتار کرکے ان کی والدہ کے حوصلے کو پست کرنے کی کوشش کی ہے۔
جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ، ان 4 معروف سیاستدانوں میں سے ایک ہیں، جنہیں بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔قبل ازیں گرفتاری محبوبہ مفتی نے اقرار کیا تھا کہ بھارتی حکومت مقبوضہ جموں اور کشمیر کو غزہ کی پٹی کی طرح بنانا چاہتی ہے اور یہاں وہی سلوک کرنا چاہتی ہے جو فلسطین کے ساتھ اسرائیل کررہا ہے۔محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ ‘ہماری سیاسی قیادت نے دو قومی نظریے کو مسترد کرتے ہوئے ایک امید لیے 1947 میں بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھا لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ہم پاکستان پر بھارت کو ترجیح دینے میں غلط تھے۔
گزشتہ روز وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے کشمیریوں کی خصوصی خود مختاری کو صدارتی فرمان جاری کرتے ہوئے واپس لے لیا تھا۔مقبوضہ وادی میں 3 روز سے غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ ہے جبکہ منتخب رہنماؤں کو بھی نظر بند کردیا گیا ہے۔آئین کے آرٹیکل 370 کو واپس لینے کے بعد اب بھارت کے دیگر علاقوں کے لوگ بھی کشمیر میں جائیداد کی خریداری کرسکیں گے اور وہاں رہائش اختیار کرسکیں گے۔کشمیریوں سمیت ہندو قوم پرست قیادت کے ناقدین نے بھارتی حکومت کے اس اقدام کو مسلم اکثریتی علاقے کو اقلیت میں تبدیل کرتے ہوئے وہاں ہندو آبادکاریاں کرنے کی کوشش بتایا ہے۔
اس کے علاوہ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ جو بی جے پی کے موجودہ صدر بھی ہیں نے کشمیر کی ریاست کو 2 وفاقی اکائیوں میں تبدیل کرنے کا بل بھی راجیا سبھا میں پیش کیا۔اس بل کے تحت وفاقی اکائیوں پر نئی دہلی کی براہ راست حکمرانی ہوگی۔