کیا عمران کی رہائی کےلیے ٹرمپ پاکستان کے قرضے بند کروا دے گا ؟

فوج سے بھگوڑا ہو کر بھاگنے کے بعد پہلے نواز شریف اور پھر عمران خان کے ساتھ مل جانے والے کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر نے دعوی کیا ہے کہ امریکی الیکشن میں ٹرمپ کے صدر منتخب ہو جانے کے بعد نون لیگی پٹواریوں کے پسینے چھوٹ گے ہیں اور ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے پاکستان پائی پائی کے لیے آئی ایم ایف کا محتاج ہے لہٰذا اگر ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد بھی کپتان کو رہا نہ کیا گیا تو امریکہ اس کے قرضے بند کروا سکتا ہے، لہٰذا نونی پٹواریوں کا گھبرانا بالکل بجا ہے۔

اپنی تازہ تحریر میں کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر عمران کی طرح امریکی سازش کے بیانیے سے ایک بڑا یو ٹرن لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹرمپ کے ہاتھوں کمیلا کی شکست کے بعد پٹواری بری طرح پریشان ہیں۔کملا ہیرس اور ڈیموکریٹک پارٹی بھی اتنے پریشان نہ ہوں گے جتنا کہ اپنے پٹواری بھائی ہو رہے ہیں۔

ڈراؤنے خواب کی طرح وہ منظر ان کی آنکھوں کے سامنے آ رہا ہے جب قیدی نمبر 804 بطور وزیراعظم وائٹ ہاؤس کے دورے پر پہنچا تھا اور اُسے تاریخی پذیرائی ملی تھی۔ صدرٹرمپ نے ان کے ایک کامیاب کھلاڑی ہونے کی تعریف کی جب کہ میلانیا ٹرمپ نے ان کے ساتھ سیلفی بنائی۔

ایاز امیر کہتے ہیں کہ نون لیگ کے پٹواری صدر اوباما کے سامنے بغیر ایک نوٹوں کی تھدی کے چار جملے ادا کرنے سے قاصر رہتے تھے۔ تاہم عمران خان نے اپنے دور حکومت میں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا۔ ان کا کہنا یے کہ ٹرمپ پاکستان میں کسی کو نہیں جانتا۔ آج کے حکمران ٹولے سے صدر ٹرمپ کوئی لینا دینا۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ بھاری مینڈیٹ والا شخص کون تھا‘ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ کس نے لگایا تھا۔ اُس سے ٹرمپ کو کیا سروکار؟ اول تو ہمارے جوہری وزیر اعظم نے اس نئے وائٹ ہاؤس میں مدعو نہیں ہونا اور کہیں ملاقات ہو بھی گئی تو بھی ان کی اتنی اوقات نہیں کہ پاکستان کے لیے کچھ کر سکیں؟

نو منتخب امریکی صدر پر صدقے واری جاتے ہوئے کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر نہایت ڈھٹائی کے ساتھ کہتے ہیں کہ ٹرمپ بانی پی ٹی آئی کی عزت اس لیے نہیں کرتے تھے کہ وہ پاکستان کے وزیر اعظم تھے بلکہ وہ انہیں ایک بین الاقوامی کھلاڑی اور سیلیبرٹی کے طور پر مانتے تھے۔ لہٰذا ہمارے پٹواریوں کو یہ ڈر کھائے جارہا ہے کہ ٹرمپ پتا نہیں کیا کہہ دے گا‘ کیا کر ڈالے گا جو ہمارے لیے پرابلم بن جائے۔ امریکی صدارتی الیکشن پر ہمارے دفتر خارجہ کا ردِعمل بھی اسی ڈر کی عکاسی کرتا ہے۔ ہماری میڈم ترجمان نے فرمایا کہ پاک امریکن دوستی ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدمِ مداخلت پر مبنی ہے۔ یہ پڑھ کر پاکستانیوں کی ہنسی چھوٹ گئی ہوگی۔

ایاز امیر کہتے ہیں کہ اب تک ہمارا رونا ہی یہ رہا ہے کہ امریکہ نے فلاں چیز کر دی اور فلاں وقت ہمارے ساتھ ہاتھ کر دیا لیکن یہاں میڈم ترجمان قوم کو نوید سنا رہی ہیں کہ امریکہ پاکستان تعلقات تو عدمِ مداخلت پر مبنی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں  آج کے حکمرانوں سے کہا تھا کہ پنگا نہ لیں، جب حکومتی بینچز نے پوچھا کہ پنگا کیا ہوتا ہے تو مولانا نے جواب دیا، پنگا جب لیتے ہیں تب ہی پتا چلتا ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔

پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات میں شدت ،پارٹی گروپوں میں تقسیم ہو گئی

ایاز امیر کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ جب مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کے جواب میں انڈیا نے لاہور اور سیالکوٹ کے محاذ پر حملہ کر دیا تو دونوں ممالک میں باقاعدہ جنگ شروع ہو گئی۔ سترہ دن کی اس جنگ جاری میں دونوں فریقین کے سانس پھول گئے تھے۔ لہٰذا جب سوویت یونین نے ثالثی کی پیشکش کی تو دونوں ممالک نے فوراً اسے قبول کیا۔ ایاز کہتے ہیں کہ کسی بھی امریکی حکومت کی جو بھی ترجیحات ہوں وہاں رائے عامہ کی ایک اہمیت ہے۔ لہٰذا امریکی کانگریس سے کوئی جاندار آواز اُٹھے تو وائٹ ہاؤس اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو اُس کا نوٹس لینا پڑتا ہے۔ ٹرمپ صدر بنا ہے تو ووٹوں سے بنا ہے کسی فارم 47 سے نہیں۔ ساٹھ امریکی ممبران کانگریس نے پہلے ہی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو خط لکھ کر بتا دیا ہے کہ پاکستان میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں نوٹس لیا جائے۔ اس کے جواب میں حکومت نے شور مچانا شروع کر دیا ہے کہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت ہو رہی ہے۔ لیکن ہمارے افلاطونوں کو یہ کون سمجھائے کہ امریکی کانگریس یا کسی اور ملک کی پارلیمنٹ میں کچھ کہا جائے توآپ اسے کیسے روک سکتے ہیں؟ وہاں تھانہ کوہسار یا تھانہ سیکرٹریٹ تو ہے نہیں کہ آپ ایف آئی آرکٹوائیں اوراگلے اٹھالیے جائیں۔ ان ساٹھ ممبرانِ کانگریس نے صدر بائیڈن کی ایڈمنسٹریشن میں پاکستان کے بارے میں یہ آواز اٹھائی تھی۔ اب جب نئی ایڈمنسٹریشن آئے گی اور پھر سے امریکی کانگریس سے ایسی آواز اٹھے تو ہمارے پٹواریوں کا پسینہ نہیں چھوٹ جائے گا؟

چنانچہ ضروری ہے کہ حکومت پاکستان اپنی حیثیت کو پہچانے‘ پاکستان آئی ایم ایف کے پائی پائی کا محتاج ہے‘ وہاں سے پیسہ نہ ملے تو کوئی بھی ملک پاکستان کو قرضہ نہ دے۔ لہٰذا پٹواریوں کا گھبرانا بالکل بجا ہے۔

Back to top button