تم بھی جیل جاؤ گے
تحریر : حامد میر
بشکریہ: روزنامہ جنگ
سوال کیا گیا کہ پاکستانی میڈیا پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اپوزیشن رہنمائوں کے بیانات اور انٹرویوز ٹی وی چینلز پر دھڑا دھڑ نشر ہو رہے ہیں پھر آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں آئین پر عملدرآمد نہیں ہو رہا؟ سوال سن کر میں مسکرا دیا اور کشمیری چائے کا گھونٹ لیکر سوال پوچھنے والے سے عرض کیا کہ آپ کو بھی اچھی طرح پتہ ہے کہ آئین پر کتنا عملدرآمد ہو رہا ہے لیکن آپ عمران خان سے اپنی اندھی نفرت کی وجہ سے کچھ نہیں مانیں گے اس لئے آپ کے ساتھ بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ سن کر میرے سامنے بیٹھا ہوا پرانا دوست بھی مسکرا دیا، اس نے چائے کا کپ میز پر رکھا اور صوفے کے ساتھ کمر لگا کر طنزیہ لہجے میں کہا چلو میں تو عمران خان سے اندھی نفرت کرتا ہوں کیونکہ اس نے بطور وزیر اعظم میرے خلاف جھوٹے مقدمے بنوائے لیکن یہ بتائو کہ تم اس کے بے تیغ سپاہی کیوں بن گئے ہو؟ کیا تم بھول گئے کہ جب وہ وزیر اعظم تھا تو تم پر پابندی لگی، ایف بی آر نے تمہیں جھوٹے نوٹس دیئے اور عمران خان تمہارے اثاثوں کی تحقیقات کراتا رہا۔ تم اپنے خلاف مقدمات کے دفاع کیلئے کبھی گوجرانوالہ، کبھی گلگت اور کبھی کراچی میں وکیل ڈھونڈتے پھرتے تھے آج وہی عمران خان مکافات عمل کا شکار ہے تو تمہیں آئین یاد آگیا ہے۔ اگر خدانخواستہ عمران خان دوبارہ وزیر اعظم بن گیا تو وہ پہلے سے زیادہ غیر آئینی اقدامات کرے گا پھر تم کیا کرو گے؟ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ حکومت کا منظور نظر بننا سب سے آسان کام ہے لیکن حکومت پر تنقید کرنا اور آپ جیسے پرانے دوستوں کو اپنا دشمن بنانا ایک مشکل کام ہے۔ مجھے یہ مشکل کام کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے لیکن میں ابھی تک ایک صحافی ہوں۔ مجھے صحافت کو سیڑھی بنا کر کوئی سرکاری عہدہ بھی نہیں لینا پلیز میری تنقید برداشت کر لیا کرو اور یقین رکھو کہ اگر عمران خان دوبارہ حکومت میں آ گیا اور اس نے وہی کام شروع کر دیئے جو آپ کی حکومت کر رہی ہے تو میں تنقید سے باز نہیں آئوں گا۔ یہ سن کر دوست آگے کو جھکا اور راز دارانہ لہجے میں پوچھنے لگا کہ کیا واقعی عمران خان جیل سے باہر آنے والا ہے؟ یہ سن کر میری ہنسی چھوٹ گئی۔ میں نے اپنے خوفزدہ دوست سے کہا کہ جناب آپ بھی تو جیل گئے تھے۔ اگر آپ جیل سے باہر آ سکتے ہیں تو عمران خان بھی آ سکتا ہے لیکن میرا مسئلہ عمران خان نہیں میرا مسئلہ پاکستان ہے اور پاکستان کا آئین ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں پاکستان چھوڑ کر کہیں اور نہ جائوں تو اس ملک کو آئین کے مطابق چلائیں ورنہ یہ ملک آپ سے نہیں چلے گا اور اگر آپ کو میرے الفاظ پر کوئی شک ہے تو بھیس بدل کر میرے ساتھ اسلام آباد، راولپنڈی یا لاہور کے کسی بازار میں چلو اور سنو عوام اس حکومت کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ یہ سن کر دوست نے ڈائیلاگ مارا ’’ہم نے ریاست کی خاطر اپنی سیاست قربان کر دی‘‘ میں نے اپنے دوست کی اس خود فریبی کا بھانڈا پھوڑنے کیلئے اسے کہا کہ اگر تمہاری قربانی کا ریاست کو کوئی فائدہ ہوا ہوتا تو مان لیتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں یا آپ عصر کے بعد پشاور سے کوہاٹ، بنوں یا ڈیرہ اسماعیل خان نہیں جا سکتے آپ نے ریاست کیلئے نہیں صرف اور صرف اقتدار کیلئے قربانی دی ہے اور اقتدار بھی اختیار کے بغیر لے لیا ہے جس میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی لڑائی شروع ہو چکی ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے باوجود سیاسی استحکام کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ ایک طرف صحافیوں کو صحافیوں سے اور سیاست دانوں کو سیاست دانوں سے لڑایا جا رہا ہے دوسری طرف جج بھی ساتھی ججوں کے خلاف صف آراء ہیں۔ پارلیمینٹ ایک مذاق بن چکی ہے جس میں صرف ہلڑ بازی ہوتی ہے اور بغیر بحث کے قوانین منظور کر لئے جاتے ہیں یہی قوانین کل کو آپ کے خلاف استعمال کئے جائیں گے۔ دوست نے پوچھا کون سے قوانین؟ اسے بتایا کہ جس طرح تحریک انصاف کے دور حکومت میں بغیر بحث و مباحثے کے ایک ایک گھنٹے میں درجنوں قوانین منظور کرائے جاتے تھے اسی طرح موجودہ دور حکومت میں پارلیمینٹ نے قوانین کی منظور ی گھنٹوں کی بجائے منٹوں میں کرانی شروع کر دی ہے۔ پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر ایکٹ 2024ء کی مثال لے لیں۔ یہ قانون بغیر بحث کے سینٹ اور قومی اسمبلی سے منظور کرایا گیا یہ قانون ناصرف 1973ء کے آئین بلکہ کئی عالمی قوانین کےبھی خلاف ہے اس قانون کے تحت اسلام آباد میں پرامن اجتماع کا حق ختم کر دیا گیا جو آئین پاکستان کی دفعہ 16اور یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس کی دفعہ 20کے خلاف ہے۔ پہلے ہی پی پی سی 1860ء سی پی سی 1898ء،پولیس آرڈر 2002ایم پی او 1960ء اور انٹی ٹیرر ازم ایکٹ 1997ء میں پرامن اجتماع پر پابندیاں لگانے کے اختیارات حکومت کے پاس موجود تھے لیکن اس نئے قانون کے تحت حکومت نے اسلام آباد کے موضع سنگجانی تک ہر اجتماع اور مظاہرے کو محدود کرنے کا اختیار حاصل کر لیا ہے۔ اسی قسم کا قانون آزاد کشمیر میں نافد کیا گیا لیکن کشمیریوں نے عوامی طاقت کے ذریعہ یہ قانون واپس کرا دیا۔ اسلام آباد والوں کو اس قانون کا پتہ ہی نہیں چلا کیونکہ اس پر بحث ہی نہ کی گئی میں نے اپنے دوست کو خبردار کیا کہ آپ نے ایک سال سے پاکستان میں ایکس پر پابندی لگا رکھی ہے، پنجاب میں ہتک عزت کے نام پر میڈیا کی آزادی سلب کرنے کا قانون صوبائی اسمبلی میں بحث کے بغیر منظور کرایا۔ اب آپ پرامن سیاسی اجتماع کا حق سلب کرنے جا رہے ہیں یہ نو آبادیاتی سوچ پاکستان کو مضبوط نہیں کمزور کریگی۔ کشمیریوں نے اس سوچ کے خلاف بغاوت کر دی ہے اب بلوچ اور پشتون نوجوان بھی اس سوچ کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ میڈیا کو کنٹرول کر کے آپ اس سوچ کو کنٹرول نہیں کر سکتے ایک ادارے کو مضبوط بنانے کیلئے باقی اداروں کو کمزور کرنے کی پالیسی ریاست کی رٹ کو صرف اسلام آباد تک محدود کر دیگی کیونکہ سیاسی آزادیوں پر پابندیوں کو قبول کرنا ہمارے ڈی این اے میں نہیں ہے۔
القادر مِس ٹرسٹ کیس
یہ سن کر میرے دوست نے پوچھا کہ یہ ڈی این اے کہاں سے آ گیا؟ میں نے اسے بتایا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے رولٹ ایکٹ کی منظوری کے خلاف متحدہ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ رولٹ ایکٹ ویسا ہی قانون تھا جیسا قانون آپ نے ہم پر نافذ کیا۔ ہماری لڑائی کسی سیاست دان کو جیل سے نکالنے کیلئے نہیں ہے، ہم قائد اعظمؒ کی سوچ اور آئین پاکستان کو ہوس اقتدار کے پجاریوں کے شکنجے سے آزادی دلانا چاہتے ہیں۔ میری بات نے دوست کو غصہ دلا دیا اس نے غصے پر قابو پاتے ہوئے ناصحانہ انداز میں کہا کہ اپنے آپ کو بدلو ورنہ تم بھی جیل جائو گے۔