شہباز حکومت آئینی ترمیم کب پارلیمنٹ میں پیش کرنے والی ہے؟
وفاقی حکومت نے ایس سی او اجلاس کے فوری بعد آئینی ترمیمی بل منظور کروانے کا فیصلہ کرتے ہوئے جہاں حکمراں اتحاد میں شامل ارکانِ پارلیمنٹ کو 16 اکتوبر تک اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کر دی ہے وہیں آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس 17 اکتوبر کے بعد بلانے کےلیے عملی اقدامات کا آغاز بھی کر دیا ہے۔
اتحادی حکومت جہاں آئینی ترمیم پر حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کو ایک پیج پر لانے کےلیے کوشاں ہے وہیں شہباز حکومت نے پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کی منظوری کےلیے نمبرز پورے کرنے کی پلاننگ بھی کر لی ہے۔ حکومت 25 اکتوبر سے قبل ہر صورت آئینی ترامیم منظور کروانے میں کامیاب ہو جائے گی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم پر اتفاق رائے بارے بلاول بھٹو کی یقین دہانی، مولانا فضل الرحمن کی تائید اور پارلیمانی سیاسی جماعتوں کھ مابین مشاورتی عمل جاری رہنا اس بات کا اشارہ ہے کہ ترمیمی بل کی منظوری کا کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔ لیکن نمبر گیم پوری کرنے کےلیے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر بات ہو گی۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق زمینی حقائق سے لگ رہا ہے کہ حکومت 25 اکتوبر سے پہلے آئینی ترمیمی بل منظور کرا لی گی۔پاکستان میں اکثریت اقلیت اور اور اقلیت اکثریت میں بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔
اُن کامزید کہنا تھا کہ زیادہ دُور کی بات نہیں ہے جب چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں اپوزیشن کے پاس زیادہ نمبر ہونے کے باوجود وہ اپنا چیئرمین سینیٹ منتخب نہیں کرا سکی تھی۔ لہذٰا یہ ایک طرح کی ‘جادو نگری’ ہے جہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
تاہم سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکمراں اتحاد کے پاس آئینی ترمیم کی منظوری کےلیے نمبرز پورے نہیں ہیں اگر حکومت کے پاس نمبر پورے ہوتے تو شنگھائی کانفرنس سے قبل ہی آئینی ترمیم حکومت منظور کرا لیتی۔
مظہر عباس کا مزید کہنا تھا کہ آئینی ترمیم کی منظوری کےلیے حکومت کے پاس دو راستے ہیں۔ یا تو الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کا فیصلہ حکومت کے حق میں کر دے یا مولانا فضل الرحمان رضا مند ہو جائیں۔
مظہر عباس کا کہنا تھا کہ حکومت مکمل طور پر اپنا مسودہ منظور کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ لہٰذا جمعیت علمائے اسلام (ف) اور اتحادیوں کا مشترکہ مسودہ ہی منظور ہو گا۔
دیکھنا یہ بھی ہو گا کہ کیا مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی کو بھی مشترکہ آئینی مسودے پر رضامند کر سکتے ہیں یا نہیں۔اُن کے بقول اگر تحریکِ انصاف کے بغیر یہ آئینی مسودہ منظور ہوا تو معاملہ پھر سپریم کورٹ میں جا سکتا ہے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ آئینی ترمیم کی منظوری کے امکانات زیادہ ہیں کیوں کہ اس پر بہت مشاورت ہو رہی ہے۔سہیل وڑائچ کے تجزیے سے اتفاق کرتے ہوئے مظہر عباس کا کہنا تھا کہ حکومت کو کچھ دو اور کچھ لو کی بنیاد پر ہی اتفاقِ رائے حاصل کرنا پڑے گا۔
ماہرین کے مطابق پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) الگ آئینی عدالت کے قیام کے حامی ہیں جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی تجویز ہے کہ الگ عدالت کے بجائے سپریم کورٹ کے سینئر ججز پر مشتمل بینچ آئینی معاملات سے متعلق کیس سنے۔ وکلا بھی آئینی تشریح کے لیے بینچ کے قیام کی تجویز کو بہتر قرار دے رہے ہیں۔
پارلیمنٹ کی کارکردگی پر نظر رکھنے والے ادارے ‘فافن’ کے نیشنل کوآرڈنیٹر عبدالرشید چوہدری کہتے ہیں کہ آئینی ترمیم کی منظوری میں جلدبازی نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ آئینی ترمیم روز روز نہیں ہوتی، لہٰذا اس کےلیے سیاسی اتفاقِ رائے ضروری ہے۔اُن کے بقول نگراں حکومت کی مدت اور انتخابی اصلاحات کو بھی شامل کر کے اٹھارہویں ترمیم کی طرح ایک جامع آئینی پیکج آنا چاہیے۔
دوسری جانب جہاں آئینی ترمیم کی منظوری بارے مشاورتی عمل جاری ہے وہیں آئینی ترمیم کی منظوری کےلیے نمبر گیم بھی حکومت کےلیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے تاہم چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کا دعوی ہے کہ حکومت پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کا بندوبست کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لیے 224 اراکین کی حمایت درکار ہے مگر قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں اس وقت حکمراں اتحاد میں شامل پارٹیوں کے اراکین کی مجموعی تعداد 215 ہے۔
ان میں مسلم لیگ (ن) کے 111، پاکستان پیپلز پارٹی کے 70، ایم کیو ایم کے 22، مسلم لیگ (ق) کے پانچ استحکام پاکستان پارٹی کے چار، مسلم لیگ ضیا، باپ، اور نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن شامل ہے۔
کیا فائز عیسی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس بننے والے ہیں؟
آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے والے عادل خان اور مسلم لیگ (ق) میں شامل ہونے والے الیاس چوہدری کا آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کا امکان نہیں ہے۔ ان ارکان نے بجٹ کے موقع پر بھی حکومت کو ووٹ نہیں دیا تھا۔ دونوں اراکین کی نااہلی کےلیے اسپیکر کے پاس ریفرنس بھی جمع کرا دیا گیا ہے۔
ان دونوں اراکین کو مائنس کرنے کے بعد حکمران اتحاد کے مجموعی اراکین کی تعداد 213 ہو جاتی ہے۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے ذرائع کے مطابق آئینی ترمیم میں اسپیکر بھی ووٹ کاسٹ نہیں کر پائیں گے۔
یوں حکمراں اتحاد کے پاس 212 ووٹ ہیں۔ اگر جمعیت علمائے اسلام کے آٹھ ووٹ بھی مل جائیں پھر بھی حکومت کو چار مزید ووٹ درکار ہوں گے۔
تاہم ماہرین کے مطابق الیکشن کمیشن کی جانب سے ترمیمی الیکشن ایکٹ کے تحت پارلیمانی سیاسی جماعتوں میں مخصوص نشستوں کے تقسیم کے بعد وفاقی اتحادی حکومت آسانی سے دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں آ سکتی ہے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ آرٹیکل تریسٹھ اے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب منحرف رُکن کا ووٹ کاسٹ ہو سکے گا۔ لہذٰا حکومت کے پاس تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ارکان کے ووٹ توڑنے کا آپشن بھی موجود ہے۔