آرمی چیف کے انکار کے باوجود PTI کی فوج سے رابطے کی کوشش

وفاقی حکومت کے ساتھ شروع ہونے والے مذاکراتی عمل کو ناکام کرنے کے بعد اب تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے عمران خان کے ایما پر ایک مرتبہ پھر طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پس پردہ مذاکرات کی کوشش شروع کر دی۔ تاہم یہ کوشش کامیاب ہونے کا امکان اس لیے نظر نہیں اتا کہ عمران خان کی جانب سے آرمی چیف کو لکھے گئے خطوط کے جواب میں جنرل عاصم منیر پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ اگر انہیں ایسا کوئی خط ملا تو وہ اسے وزیر اعظم ہاؤس روانہ کر دیں گے چونکہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے دعوی کیا ہے کہ حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل ناکام کرنے کے بعد اب تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے ایک مرتبہ پھر فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پس پردہ بات چیت کی کوششوں کا آغاز کر دیا دیا، اور اس حوالے سے عمران خان نے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی ڈیوٹی لگائی ہے۔ یاد رہے کہ چند روز پہلے گنڈاپور نے اڈیالہ جیل راولپنڈی میں عمران خان سے ایک طویل ملاقات کی تھی۔ باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ گنڈا پور عمران خان اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بات چیت کی بحالی کیلئے اپنے تعلقات کا استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم، پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات وقاص اکرم شیخ نے تردید کی ہے کہ ایسی کوئی کوشش نہیں ہو رہی ہے۔
اس تردید کے باوجود، سینیئر صحافی انصار عباسی کا اصرار ہے کہ پی ٹی آئی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے پس پردہ بات چیت شروع کرنے کیلئے بے قرار ہے اور عمران خان نے علی امین گنڈاکپور کو یہ ذمہ داری سونپی ہے۔ لیخن تاحال، اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ دوسرا فریق بات چیت کیلئے آمادہ ہے یا نہیں۔ فوج اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ وہ خود کو سیاسی مذاکرات میں شامل نہیں کرے گی اور یہ سیاسی جماعتوں کا کام ہے کہ وہ اپنے مسائل بات چیت سے حل کریں۔ فوجی ترجمان کئی مرتبہ واضح الفاظ میں بتا چکے ہیں کہ سیاسی معاملات پر بات چیت سیاست دانوں کا کام ہے اور فوج کا حصے کوئی تعلق نہیں۔
چند روز قبل، آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی جانب سے خط موصول ہونے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ایسا خط آیا بھی تو وہ اسے پڑھنے کے بجائے وزیراعظم کو بھجوا دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی حرکتوں کے سیاسی محرکات ہوتے ہیں لہذا وہ ایسے معاملات سے دوری برقرار رکھنے کو ترجیح دیں گے۔ ان کا یہ بیان میڈیا کے سوالات کے جواب میں اُس وقت سامنے آیا جب کرپشن سے لیکر دہشت گردی سمیت مختلف الزامات کے تحت اگست 2023ء سے جیل میں قید پارٹی کے بانی چیئرمین نے جیل سے آرمی چیف کو تیسرا کھلا خط لکھا تھا۔
حال ہی میں پی ٹی آئی کے رہنما علی امین گنڈا پور اور بیرسٹر گوہر نے جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی تھی جس سے ممکنہ سیاسی بات چیت کے حوالے سے قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔ تاہم، حکومتی اور سیکورٹی ذرائع کا اصرار تھا کہ یہ ایک غیر طے شدہ میٹنگ تھی جس میں صرف اور صرف سیکورٹی امور پر توجہ دی گئی۔ اگرچہ عمران خان نے کہا یہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے مذاکرات کے آغاز ہوسکتا ہے اور اس پر انہوں نے جوش و خروش کا اظہار کیا تھا، لیکن بیرسٹر گوہر محتاط رہے، میڈیا کو یہ کہتے رہے کہ صرف سیکیورٹی امور پر بات ہوئی ہے۔
انصار عباسی کے مطابق میڈیا کے کچھ حلقوں کی طرف سے سامنے آنے والی اطلاعات میں یہ تاثر ملا کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کی دیگر شخصیات کے درمیان فالو اپ میٹنگ ہوئی، جبکہ ذرائع نے بتایا کہ ایسی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔
اس کے بجائے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی رہنمائوں نے ایک وفاقی وزیر سے ملاقات کی تھی۔ جس وقت گنڈاپور جیسے رہنما بیک چینل مذاکرات کیلئے کوشاں ہیں، عمران خان اسٹیبلشمنٹ کیخلاف جارحانہ موقف اپنائے ہوئے ہیں۔
ویسے بھی عمران خان کے تین کھلے خطوط کو عسکری حلقوں میں اشتعال انگیز سمجھا جا رہا ہے۔ عمران خان نے ان خطوط میں فوج پر سیاست میں مداخلت کے الزامات لگائے تھے اور آرمی چیف سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس تاثر کو ختم کریں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پارٹی کا غیر ملکی چیپٹر عمران خان کی رہائی کیلئے پاکستان پر دبائو ڈالنے کیلئے واشنگٹن میں لابنگ کر رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یورپی یونین پی ٹی آئی کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پاکستان کیخلاف کوئی بھی ایکشن لے سکتی ہے۔ ایسے میں سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے مابین کسی قسم کے بیک چینل مذاکرات شروع ہونے کا امکان نظر نہیں آتا۔