الیکشن سے پہلے کون کون سے عدالتی فیصلے آنے والے ہیں؟
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ انتخابات میں انتخابی نشان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح پاکستان تحریک انصاف کی اس کے ووٹروں میں مقبولیت میں اس کا انتخابی نشان ’بلا‘ 2018 کے عام انتخابات کے موقعے پر سامنے آیا تھا چونکہ پی ٹی آئی کے امیدوار غیر معروف تھے اور ووٹرز ان کو ان کے ناموں سے نہیں جانتے تھے، تحریک انصاف کا انتخابی نشان کرکٹ کی مناسبت سے عوام کی نظروں میں مقبول ترین انتخابی نشان بن گیا۔ تاہم حالیہ دنوں میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات پر اٹھنے والے الیکشن کمیشن کے سوالات اور اس کی روشنی میں ’بلے‘ کا انتخابی نشان واپس لینے کا اقدام اس کی قیادت نے پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، جہاں جج کامران حیات میاں خیل پر مشتمل سنگل بینچ نے سماعت کے بعد انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے اور انتخابی نشان واپس لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا اور الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کا سرٹیفکیٹ ویب سائٹ پر ڈالنے اور انتخابی نشان بحال کرنے کی بھی ہدایت کی گئی۔
پشاور ہائی کورٹ نے فیصلے میں انتخابی نشان کی اہمیت پر زور دیا، لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ سماعت کے موقع پر الیکشن کمیشن کا کوئی وکیل عدالت میں موجود نہیں تھا۔دوران سماعت فاضل جج نے حیران کن ریمارکس دیے کہ انہوں نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ ہی نہیں پڑھا۔
کنور دلشاد کے بقول تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان کا معاملہ کیا نتائج دے سکتا ہے اور زمینی حقائق کی روشنی میں سپریم کورٹ تک جاتا دکھائی دے رہا ہے، جس کے منطقی انجام کے گہرے اثرات آئندہ ہونے والے انتخابات پر پڑیں گے۔
کنور دلشاد کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن کا فیصلہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے دستور کو ہی مدنظر رکھا تھا اور فیصلے میں انٹرا پارٹی انتخاب کی خامیوں کی نشاندہی کی تھی۔ اب اگر انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں آ جاتا ہے تو الیکشن کمیشن کے ہاں ممنوعہ فنڈنگ کیس کا اہم ترین مقدمہ بھی زیر سماعت ہے۔گذشتہ دو سال سے یہ اہم ترین مقدمہ مختلف عدالتوں سے ہوتا ہوا ایف آئی اے اور دیگر اداروں کے مرحلہ وار تفتیشی عمل سے گزرتا ہوا الیکشن کمیشن کے ہاں زیر سماعت ہے۔ تحریک انصاف نے بھی فیصلہ کو روکنے کے لیے حکم امتناعی لے رکھا تھا اور اس معاملے پر سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کو کارروائی کرنے کی اجازت دے رکھی تھی تاہم الیکشن کمیشن نے بعض معروضی حالات کے پیش نظر یا حکم امتناعی کی وجہ سے کارروائی مکمل نہیں کی۔اب اگر حکم امتناعی واپس لیا جاتا ہے تو الیکشن کمیشن ممنوعہ فنڈنگ ضبط کرنے کے بعد پارٹی کا انتخابی نشان الیکشن ایکٹ کی دفعات 209 اور 215 کے تحت واپس لینے کا مجاز ہے، لیکن اس کے لیے پارٹی کے سربراہ کو شوکاز نوٹس دینا لازمی ہو گا۔ بہرحال تحریک انصاف اس وقت اپنی ماضی کی غلط پالیسی کی وجہ سے عدالتی گرداب میں ہے۔
تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا جاتا ہے تو تحریک انصاف قومی دھارے سے آؤٹ ہو جائے گی۔ وہ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں سے محروم ہونے کے علاوہ آئندہ سینیٹ کی 52 نشستوں پر بھی اپنے نمائندے کھڑے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی۔
کنور دلشاد کے مطابق اسی طرح دو جنوری 2024 کو سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 52 (1) ایف اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 232 کے بارے میں اہم ترین فیصلے کرنے ہیں اور چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا لارجر بینچ سماعت کرے گا۔جس میں سپریم کورٹ نااہلی کی مدت کا تعین کرے گی۔اسی طرح چھ جنوری 2024 کو سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے عمران خان کے خلاف زیرسماعت مقدمات کے بارے میں اہم ترین فیصلے کرنے ہیں اور نو جنوری کو پشاور ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ انٹرا پارٹی الیکشن کے بارے میں سماعت کرے گا۔
کنور دلشاد کے مطابق آئندہ انتخابات آٹھ فروری کو ہونا ہیں، اس سے بیشتر جنوری کا پہلا ہفتہ عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے فیصلوں کا منتظر ہے۔انتخابات کا طبل بج چکا ہے۔ 13 جنوری تک انتخابات کی دھند ختم ہو جائے گی اور امیدواروں کو انتخابی مہم کے لیے 24 دن کی مدت حاصل ہو جائے گی۔