الیکشن میں دھاندلی کے آزمودہ نسخے کیا ہیں؟
17 جولائی کے ضمنی الیکشن سے پہلے ہی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نےاسٹیبلشمنٹ، الیکشن کمیشن اور نواز لیگ پر دھاندلی کے الزامات عائد کرنا شروع کر رکھے ہیں جن کا بنیادی مقصد اپنی ممکنہ شکست کے بعد خود کو فیس سیونگ فراہم کرنا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں ہونے والے چند ایک انتخابات کے سوا کسی بھی الیکشن کو دھاندلی سے پاک قرار نہیں دیا جا سکا اور ہر الیکشن میں ہارنے والی جماعت نے جیتنے والے پر دھاندلی کا الزام لگایا ہے۔
ماضی میں میڈیا اور موبائل کیمروں کی عدم موجودگی میں ووٹ ڈالنے کے عمل پر اثر انداز ہونا کافی آسان ہوتا تھا۔ لیکن جدید ٹیکنالوجی اور خاص طور پر موبائل فون کے آ جانے کے بعد پولنگ ڈے پر جعلی ووٹ ڈلوانا اور گڑبڑ کرنا اب مشکل کام ہے، لیکن ماہرین کے مطابق اب بھی انتخابات پر اثر انداز ہونے کے کئی جدید اور قدیم طریقے ہیں۔ اپنے نمائندوں کے ذریعے انتخابات کی نگرانی کرنے والی سماجی تنظیم ’پتن ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن‘ نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق اس وقت پاکستان میں انتخابی دھاندلی اور ووٹنگ پر اثرانداز ہونے کے کل 163 طریقے رائج ہیں۔
اردو نیوز کے مطابق پتن کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان 163 طریقوں میں سے 26 انتخابی عمل کے دوران اپنائے جاتے ہیں جبکہ 75 طریقے پولنگ ڈے پر، 51 پولنگ سے پہلے اور 11 پولنگ کے بعد استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ طاقت اور پیسے کا کھلا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کئی مواقع پر دیکھا گیا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کا عمل چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کی تعیناتی سے ہی شروع ہو جاتا ہے، انتخابی نتائج مرضی کے مطابق حاصل کرنے والی قوتیں اپنے من پسند افراد کو ان عہدوں پر تعینات کرنے میں کامیابی حاصل کر لیتی ہیں۔اس کے ساتھ ہی نگران حکومتوں کی تعیناتی بھی انتخابی عمل پر اثرانداز ہونے کی راہ ہموار کرتی ہے۔
’پتن‘ کی رپورٹ نے انتخابات پر اثر انداز ہونے کے کچھ دائمی طریقوں کی نشاندہی کی ہے جن میں اہم ضلعی اور دوسرے عہدوں پر افسران کی تعیناتی اور ترقی، مقامی سطح پر کچھ گروہوں کے سربراہان کو ترقیاتی فنڈز اور انتظامی کمیٹیوں کی نمائندگی کے ذریعے فائدہ پہنچانا، جھوٹی خبریں اور سروے پھیلانا، قوانین میں ترامیم کروانا، حلقہ بندیوں میں مرضی کی ترمیم کروانا، مساویانہ بنیادوں پر ووٹ ڈالنے کا حق نہ دینا، ووٹ منتقل کر دینا، ووٹ گنتی کے وقت بجلی بند کروا کر ووٹوں میں رد و بدل کرنا شامل ہے۔
رپورٹ میں انتخابات سے پہلے کے 60 سے 90 روز کے اندر دھاندلی یا انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کے 51 طریقوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان میں مرضی کے انتخابی عملے کی تعیناتی، ضلعی افسران کے تبادلے، لوڈ شیڈنگ کے شیڈول میں تبدیلیاں، مرضی کے ججز کی تعیناتی، مقدمات کا اندراج اور اخراج، قرضوں کی معافی اور یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی، پولنگ سٹیشنز مخصوص ووٹروں سے دور بنانا، پولنگ کے طریقے میں غیر اعلانیہ تبدیلیاں، مخالف امیدواروں کو مشکوک وجوہات پر نااہل کروانا، ایک ہی گھرانے کے ووٹرز کے ووٹوں کو مختلف پولنگ سٹیشنوں پر تقسیم کر دینا، پولنگ ایسے دن پر کروانا جب ایک مخصوص جماعت کو فائدہ ہو، کمزور امیدواروں کو مقبول جماعت یا امیدوار سے ملتے جلتے انتخابی نشان الاٹ کر دینا بھی شامل ہیں۔ اسکے علاوہ دیگر رائج طریقوں میں مخالف ووٹرز کے شناختی کارڈ چھین لینا، پیسوں کے عوض انتخابی عمل کے خاتمے تک شناختی کارڈ تحویل میں لے لینا، ووٹ خرید لینا، ملازمین اور ماتحتوں کو کسی ایک جماعت کی حمایت پر مجبور کرنا، پولنگ سٹاف کی خاطر مدارت اور میزبانی کے ذریعے ہمدردیاں حاصل کرنا، کھانا اور اشیائے ضروریہ کی مفت تقسیم، مخالف جماعت کے کارندوں اور پولنگ ایجنٹس کو خرید لینا شامل ہے۔
پولنگ ڈے پر ہونے والی دھاندلی کے طریقوں میں سکیورٹی ناکافی ہونا، دھاندلی کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی نہ کرنا یا اس میں تاخیر کرنا، پولنگ ایجنٹس کو پولنگ کے عمل سے باہر رکھنا یا دور بٹھانا یا تاخیر سے پولنگ کے کمرے میں داخلے کی اجازت دینا، ایک وقت میں بہت سے لوگوں کو پولنگ والے کمرے میں گھسا کر جعلی ووٹ ڈالنا، ٹرن آؤٹ کم کرنے کے لیے تشدد کروانا، بیلٹ پیپر چوری کروانا، ووٹوں والے ڈبے کو مکمل طور پر بند نہ کر کے ردوبدل کا موقع فراہم کرنا شامل ہیں۔ انکے علاوہ دیگر طریقوں میں شناختی کارڈ کے بغیر ووٹ کی پرچی دے دینا، ووٹرز کے انگوٹھوں پر نشان نہ لگانا، بیلٹ پیپرز کی پشت پر تصدیقی مہر نہ لگانا اور دستخط نہ کرنا، ووٹرز کا انگوٹھا نہ لگوانا، وقت ختم ہو جانے کے بعد ووٹ ڈلوانا، ووٹ کی پرچیاں خراب کر دینا، مسترد شدہ ووٹوں کو الگ نہ کرنا، ووٹرز فہرستوں کو مناسب طریقے سے مرتب نہ کرنا، پوسٹل بیلٹس کو نہ گننا اور نتائج کے اعلان میں جان بوجھ کر تاخیر کرنا شامل ہے۔
پتن کی رپورٹ کے مطابق پولنگ کا عمل مکمل ہو جانے کے بعد نتائج پر اثرانداز ہونے کے لیے اپنائے جانے والے طریقوں میں نتائج کے اعلان میں دانستہ تاخیر، انتخابی مواد کی مناسب جانچ پڑتال نہ کرنا، انتخابی خلاف ورزیوں پر جانب دارانہ کارروائیاں، خرچ کیے گئے فنڈز کی غیرشفافیت کی غیر منصفانہ تحقیقات، امیدوراوں کے اعتراضات اور نتائج کے خلاف درخواستوں کو قبول نہ کرنا اور قبول کی گئی درخواستوں پر فیصلوں میں تاخیر شامل ہیں۔ اس رپورٹ بارے بات کرتے ہوئے ’پتن‘ کے کوآرڈی نیٹر اور الیکشن آبزرور سرور باری نے بتایا کہ جہاں کہیں بھی تمام امیدواروں کو انتخاب لڑنے یا انتخابی مہم چلانے یا ووٹرز تک رسائی حاصل کرنے کے یکساں مواقع نہیں ملتے وہاں الیکشن جائز اور غیرجانبدار نہیں ہوتے۔ ’دھاندلی اب بہت عمدہ شکل اختیار کر چکی ہے۔ اب نتائج کو اپنے حق میں موڑنے کے لیے کئی غیر روایتی طریقے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔‘
سرور باری کا کہنا تھا کہ ماضی کے برعکس اب لوگوں کے ووٹ خریدے نہیں جاتے بلکہ مخالف ووٹروں کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کے لیے جدید طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان جدید طریقوں میں سے ایک یہ ہے کہ جس علاقے سے امیدوار کو اپنے خلاف ووٹ پڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے وہ اس علاقے کے بڑوں سے رابطہ کر کے پوری برادری کے شناختی کارڈ اپنے پاس رکھ لیتا ہے اور اس کے بدلے ان کو فی کس ہزاروں روپے کی رقم ادا کر دی جاتی ہے۔ انتخابی عمل مکمل ہو جانے کے بعد یہ شناختی کارڈز واپس کر دیے جاتے ہیں۔
دھاندلی اور انتخابی بے ضابطگیوں میں فرق انتخابات کی نگرانی کرنے والی پاکستان کی بڑی تنظیم فافن کے سینئر عہدیدار مدثر رضوی کے مطابق انتخابی عمل میں زیادہ تر بے ضابطگیاں ہوتی ہیں جو درحقیقت الیکشن قوانین کی خلاف ورزیاں ہیں۔ دھاندلی صرف اس عمل کو کہا جا سکتا ہے جس میں کوئی سرکاری افسر یا حکومت کسی ایک امیدوار کو جتوانے کے لیے کردار ادا کرے اور یہ تحقیق کے بعد ثابت ہو جائے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ کئی بے ضابطگیاں ایسی ہوتی ہیں جو پولنگ کے نتائج کو تبدیل کر دیتی ہیں۔ ’انتخابی قانون کی 240 شقیں ہیں اور ان کی پھر کئی ذیلی شقیں ہیں۔ اس طرح یہ مجموعی طور پر لگ بھگ چار، پانچ سو ضابطے بنتے ہیں جن کی خلاف ورزی انتخابی بے ضابطگی تصور کی جائے گی۔‘ انہوں نے کہا کہ ’لیکن کچھ بے ضابطگیاں ایسی ہیں جن سے انتخابات پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے، جیسے کہ حلقہ بندیوں کو ایک مخصوص انداز سے ترتیب دینا، ووٹروں کی فہرست کو مرضی سے ترتیب دینا اور پولنگ سٹیشنز کو مخصوص لوگوں کی پہنچ سے دور بنانا۔‘