حکومتی دعوؤں کے باوجود بجلی سستی کیوں نہیں ہو پا رہی؟

مسلسل حکومتی دعووں کے باوجود پاکستان میں بجلی سستی نہیں ہو پا رہی جسکے باعث نہ صرف عام گھریلو صارفین بلکہ صنعتکار بھی پریشانی کاشکار ہیں۔

حکومت بجلی کی قیمت میں کمی لانے کے لیے ایک طرف تو آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے تو دوسری جانب بلوں کی عدم ادائیگی اور لائن لاسز میں کمی لانے کے دعوے کر رہی ہے۔ تاہم بجلی کی قیمت کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

توانائی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومتی اقدامات سے عارضی سہولت تو مل سکتی ہے تاہم یہ توانائی کے شعبے کے مسائل کا دیرپا حل نہیں ہے۔

انکا کہنا ہے کہ حکومت بخار کی علامات پر تو کام کر رہی ہے تاہم بجلی کے شعبے میں بیماری کی اصل وجوہات سے ابھی بھی نظریں چرائے ہوئے ہے چنانچہ پاکستان میں بجلی خطے کے دیگر ممالک بشمول افغانستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے مقبلے میں بہت زیادہ مہنگی ہے۔ یاد ریے کہ پاکستان میں گھریلو اور صنعتی صارفین کے لیے بجلی کی قیمت نہ صرف خطے بلکہ دنیا میں مہنگی ترین ہے جو کہ 13 سینٹ فی یونٹ تک وصول کی جا رہی ہے۔ ملک میں گزشتہ چار برس سے بجلی کی قیمتوں میں مسلسل بے تحاشا اضافہ کیا گیا ہے جسکے بعد گھریلو صارفین کے لیے بجلی کی قیمت تقریباً 45 روپے فی یونٹ تک جا پہنچی ہے۔ ایسے میں نہ صرف عام گھریلو صارفین بلکہ متمول صنعتکار بھی پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں۔

حکومت کے مطابق یہ اضافہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی شرائط کے تحت کیا جا رہا ہے، تاہم اس کے ساتھ کیپسٹی پیمنٹ، بلوں کی عدم ادائیگی اور لائن لاسز کی وجہ سے بجلی صارفین سے بجلی کی کھپت سے زیادہ بل وصول کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں وزیرِ اعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کی قیمت کم نہیں ہو گی تو صنعت، زراعت اور برآمدات میں اضافہ نہیں ہو گا۔ وفاقی وزیرِ توانائی اویس لغاری کہتے ہیں کہ حکومت بجلی کی قیمتوں میں واضح کمی کرنا چاہتی ہے جس کے لیے بجلی کے بلوں میں مختلف ٹیکسوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

اُنہوں نے پارلیمنٹ کی توانائی کمیٹی کو بتایا کہ حکومت توانائی کی قیمت میں کمی لانے پر کام کر رہی ہے اور آئندہ ماہ میں بجلی کی قیمت 10 سے 12 روپے فی یونٹ کم کر سکتے ہیں۔

حکومت بجلی کی قیمت میں کمی لانے کے لیے آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کے علاوہ لائن لاسز میں کمی لانے کے دعوے کر رہی ہے۔وزارتِ توانائی کے مطابق آئی پی پیز کے ساتھ مشاورت کے بعد ملکی خزانے میں 1100 ارب روپے کی بچت کی ہے۔ توانائی کے شعبے سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے حکومتی اقدامات سے کچھ وقتی سہولت تو مل سکتی ہے لیکن یہ توانائی کے شعبے کے مسائل کا دیرپا حل نہیں ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ حکومت نے بجلی کے ایسے بہت سے منصوبے لگا دیے جن کی نہ تو ضرورت تھی اور نہ ہی ان کی پیدا شدہ بجلی سسٹم میں شامل کی جا سکتی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ بجلی گھروں کی پیدا شدہ بجلی استعمال تو نہیں کی جا سکتی لیکن انہیں قیمت کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔

ماہرین کے مطابق حکومت کوشش کر رہی ہے کہ معیشت پر پڑنے والے اس بڑے بوجھ کو کم کیا جا سکے تاہم معاہدوں کی موجودگی میں اس معاملے کو حل کرنے میں پیچیدگی کا سامنا ہے۔ معروف ماہر معاشیات فرخ سلیم کہتے ہیں کہ حکومت بخار کی علامات پر تو کام کر رہی ہے تاہم بجلی کے شعبے میں بیماری کی اصل وجوہات سے ابھی بھی نظریں چرائے ہوئے ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت بھی یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ نظرِ ثانی معاہدوں کے نتیجے میں 700 ارب روپے کی بچت ہوئی ہے اور موجودہ حکومت بھی دعویٰ کرتی ہے کہ اس سے 1100 ارب روپے کی بچت ہو گی۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں عام صارف اور صنعت کے لیے بجلی کی قیمت کم نہیں ہوئی ہے۔

فرخ سلیم کے بقول پاکستان کے توانائی کے شعبے کا اصل مسئلہ بجلی کی چوری ہے جو کہ بعض ڈویژن میں 50 فی صد تک ہے ایسے میں حکومت آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظرِ ثانی کر کے بخار کو تو ٹھنڈا کر لے گی مگر اصل مرض وہیں رہے گا جو کہ وقت کے ساتھ بڑھتا بھی جائے گا۔ ان کے مطابق حکومت پرانے آئی پی پیز کی بات تو کر رہی ہے لیکن توانائی کے شعبے کا اصل مسئلہ 2015 کے بعد لگائے جانے والے منصوبے ہیں۔

انکا کہنا یے کہ سی پیک کے تحت بجلی کے منصوبے تو لگ گئے لیکن صنعتی زون تاحال قائم نہیں ہو سکے ہیں جس کی وجہ سے اس اضافی پیدا شدہ بجلی کا استعمال نہیں ہو سکا ہے۔ چنانچہ جب تک چین کی حکومت، سرمایہ کار کمپنیاں پاکستان کی حکومت کے ساتھ نہیں بیٹھتی ہیں اور اس کا اتفاقِ رائے سے کوئی حل نہیں نکالتے یہ مسئلہ ملکی معیشت کو آگے بڑھنے نہیں دے گا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت لگائے گئے بجلی کے منصوبوں کا بنیادی حل نکالنا ہو گا اور اگر چینی حکومت اس معاملے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتی ہے تو پاکستانی حکومت کوئی یک طرفہ اقدام نہیں لے سکتی ہے۔

ماہرین کا کہنا یے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی زون پر تیزی سے کام مکمل کر کے بجلی کی اضافی ضرورت پیدا کرے تاکہ پیدا ہونے والی بجلی کو استعمال میں لایا جا سکے۔  فرخ سلیم کے بقول صنعتی صارفین اپنی بجلی کی ضروریات کا کوئی متبادل نہیں کر سکتے اور پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی صنعت ٹیکسٹائل ہے جس کی 64 فی صد لاگت بجلی کی ہے۔ چنانچہ جب تک حکومت توانائی کی قیمت کو کم نہیں کرتی اس کے معاشی اہداف حاصل نہیں ہو سکتے۔

Back to top button