مونس الٰہی نے جنرل باجوہ کی ڈبل گیم کیسے بے نقاب کی؟

چودھری پرویزالٰہی کے بیٹے چوہدری مونس الٰہی کی جانب سے اس انکشاف کے بعد کہ انہیں تحریک عدم اعتماد میں پی ڈی ایم کی بجائے عمران خان کا ساتھ دینے کا مشورہ جنرل قمر باجوہ نے دیا تھا، اس الزام کی تصدیق ہو گئی ہے کہ سابق آرمی چیف آخری وقت تک ڈبل گیم کھیل رہے تھے اور ان کی ہمدردیاں اصل میں عمران کے ساتھ تھیں جس کا بنیادی مقصد اپنے عہدے میں توسیع حاصل کرنا تھا۔ اسی لیے چھ مہینے تک عمران اور انکے ٹرول بریگیڈ سے گالیاں کھانے کے باوجود جنرل باجوہ نے اکتوبر 2022 میں ایوان صدر میں عمران سے ایک خفیہ ملاقات کی جسکے بعد انہوں نے باجوہ کو نئے الیکشن کے بعد نئی حکومت بننے تک برقرار رکھنے کی تجویز دے دی تھی۔ تاہم حکومت نے اس تجویز کو سختی سے مسترد کر دیا تھا جس کے بعد جنرل باجوہ نے عمران کے حمایتی فیض دھڑے کے ساتھ مل کر لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کو نیا آرمی چیف بنانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں، لیکن بالآخر یہ تمام کوششیں ناکام ہوئیں اور جنرل عاصم منیر نئے فوجی سربراہ بن گئے۔
یاد رہے کہ مہر بخاری کو انٹرویو دیتے ہوئے مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور عمران خان کے ساتھی مونس الٰہی نے یہ حیرت انگیز انکشاف کیا ہے کہ جنرل باجوہ عمران خان حکومت کو بچانا چاہتے تھے اور اسی لیے آخری لمحات میں انہوں نے قاف لیگ کو پی ڈی ایم کا ساتھ دینے کی بجائے عمران کے ساتھ کھڑے رہنے کا مشورہ دیا۔ مونس الٰہی نے کہا کہ پی ٹی آئی کئی ماہ سے جنرل باجوہ کو ‘غدار’، ‘میر جعفر’، ‘جانور’ اور نجانے کیا کچھ قرار دیتی آئی ہے، حالانکہ عمران کی پنجاب حکومت انہی کے مرہون منت تھی۔ ایک سوال پر مونس نے کہا کہ میں پہلے دن سے تحریک انصاف کے ساتھ جانا چاہتا تھا۔ ہمیں دونوں طرف سے وزارت اعلیٰ کی پیشکش آ چکی تھی۔ پی ڈی ایم کی طرف سے بھی آفر تھی اور پی ٹی آئی کی طرف سے بھی۔ میں نے جنرل باجوہ سے پوچھا کہ آپ کا کیا خیال ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ عمران کے ساتھ جائیں۔ تب ہی میں نے والد صاحب اور شجاعت صاحب کو کہا کہ ہمیں پی ڈی ایم کی بجائے عمران کے ساتھ جانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ جنرل باجوہ کے آرمی چیف کے عہدے سے ہٹتے ہی ایسی اطلاعات سامنے آنا شروع ہو گئی تھیں کہ وہ آخر وقت تک حکومت پر توسیع کے لئے دباؤ ڈالتے رہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس دلوانے کے لیے پی ڈی ایم کی قیادت پر دباؤ ڈالا تھا لیکن آصف علی زرداری نہ مانے۔ پنجاب کی حکومت بھی پی ڈی ایم سے اس لیے چھینی تھی کہ جنرل باجوہ بارگیننگ پوزیشن میں رہیں اور عمران کا دباؤ اپنی توسیع کے لیے استعمال کرتے رہیں۔ حکومتی ذرائع تو یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ جنرل باجوہ نے عمران کی جانب سے قومی اسمبلی توڑے جانے کے بعد پوری کوشش کی کہ سپریم کورٹ اسے بحال نہ کرے۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے سسر جنرل اعجاز امجد کے گھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بندیال سے ملاقات کی اور انہیں حکومت بحال نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ لیکن پانچ رکنی بینچ کے چار ججوں نے حکومت بحال کرنے کا ذہن بنا لیا تھا چنانچہ بندیال کو بھی ان کا ساتھ دینا پڑا۔
اب مسلم لیگ ق کے رہنما اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے صاحب زادے مونس الٰہی نے اس تاثر کی تصدیق کردی ہے کہ جنرل باجوہ درپردہ عمران خان کے ساتھ تھے۔ انہوں نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک طبقہ باجوہ صاحب پر تنقید کر رہا ہے، لیکن یاد رہے کہ یہ وہی باجوہ ہیں جنھوں نے سمندر کا رخ پی ٹی آئی کے حق میں موڑا تھا، تب وہ بالکل ٹھیک تھے لیکن آج وہ ٹھیک نہیں رہے، میں اس نکتے پر پی ٹی آئی سے اتفاق نہیں کرتا۔ جب تک وہ آپ کی سپورٹ میں سب کچھ کر رہا تھا تب تک وہ بالکل ٹھیک تھا، اب وہ غدار ہو گیا ہے۔ مونس نے کہا کہ میں نے پی ٹی آئی والوں سے کہا ہے کہ آپ ٹی وی پر آ کر بتاؤ کہ وہ غدار کیسے ہے اور میں یہ بتاؤں گا کہ اس بندے نے تمہارے لیے کیا کیا کچھ کیا ہے۔ مونس کا کہنا تھا کہ ’میری نظر میں تو باجوہ صاحب کا کردار بالکل برا نہیں تھا، اگر برا ہوتا تو وہ کبھی مجھے یہ نہ کہتا کہ آپ عمران خان کے ساتھ جائیں۔‘
انھوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’جس وقت تحریکِ عدم اعتماد کا وقت قریب تھا تو دونوں طرف سے آفر آ گئی تھی میاں صاحبان سے بھی اور پی ٹی آئی سے بھی۔’میرا جھکاؤ پی ٹی آئی کی طرف تھا، یہ سب کو پتا ہے، والد صاحب سے بھی اس بارے میں بحث ہوئی اور انھوں نے جنرل باجوہ سے بھی یہی کہا کہ میری خواہش یہی ہے کہ آپ پی ٹی آئی کی طرف جائیں۔‘ مونس الٰہی نے کہا کہ انھوں نے تو اشارہ ہی کرنا تھا، یہاں بھی کہانی بنی ہوئی تھی، وہاں بھی بنی ہوئی تھی انھوں نے ایک اشارہ کرنا تھا۔‘
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مونس الٰہی کی جانب سے اس مرحلے پر جنرل باجوہ کی حمایت کرنا جب عمران خان پرویز الٰہی کو پنجاب اسمبلی توڑنے کا مشورہ دے رہے ہیں ایک سیاسی چال ہے۔ اس چال کا مقصد عمران کے ساتھ جھگڑا ڈالنا ہے تاکہ اسمبلی نہ توڑنے کا بہانہ تراشا جا سکے۔ یاد رہے کہ عمران خان سے ملاقات کے بعد پرویز الٰہی نے یہ بیان تو دیا ہے کہ پنجاب حکومت عمران خان کی امانت ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اسمبلی توڑنے کے موڈ میں نہیں۔ اس حوالے سے مونس الٰہی نے بھی کہا ہے کہ عمران اگر کل اسمبلیاں تحلیل کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں لیکن اگر ہمیں فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے تو ہم اگلا بجٹ پیش کر کے ہی اسمبلی تحلیل کرنا چاہیں گے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت بہت سارے ایم پی ایز کو فنڈ تقسیم کیے جانے ہیں تاکہ بزدار حکومت میں شروع ہونے والے پراجیکٹس پر کام کم از کم شروع ہو سکے۔