سپریم کورٹ : پی ٹی آئی انٹرا پارٹی نظرثانی کی درخواست پر سماعت 21 اکتوبر تک ملتوی
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی کی جانب سے انٹرا پارٹی نظرثانی کی درخواست پر التواء مانگنا تاخیری حربہ قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی کیس کے فیصلے کےخلاف نظر ثانی کی درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کےآغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے حامد خان نے آج سماعت کی التوا کی درخواست دی ہے،ایسی درخواست پہلی بار ہمارےپاس آئی ہے، سپریم کورٹ کےپاس تو ویڈیو لنک کی سہولت بھی موجود ہے۔
چیف جسٹس نے التوا کی درخواست پڑھنےکی ہدایت کرتےہوئے کہاکہ کیس میں پی ٹی آئی کے سات وکلا تھے لیکن آج ایک بھی پیش نہیں ہوا، 13 جنوری کو فیصلہ آیا لیکن نظرثانی درخواست 6 فروری کو دائر ہوئی، لگتا ہے پی ٹی آئی فیصلے پر نظر ثانی نہیں چاہتی تھی۔
التواء مانگنا تاخیری حربہ قرار
چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ پی ٹی آئی کی جانب سے التوا مانگنا تاخیری حربہ ہے،کیس ملتوی کردیتے ہیں لیکن سچ تو بولا جائے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیےکہ پی ٹی آئی کے سارے وکلا نہیں آئے،کوئی جونیئر وکیل بھی پیش نہیں ہوا، یہ طریقہ درست نہیں ہے، سپریم کورٹ میں ایسا رویہ نہیں ہوناچاہیے،میں کیس ملتوی کرنے سےاتفاق نہیں کرتی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیےکہ انصاف کے تقاضوں کےتحت کیس ملتوی کر رہے ہیں، التوا کی درخواست پرنہیں، حامد خان کی ذات کےلیے کیس ملتوی نہیں کریں گے،صبح بھی ہم نے التوا کی درخواستیں مسترد کی ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوایا اور حکم نامے کی کاپی نظرثانی کیس کےوکلا، ایڈووکیٹ آن ریکارڈ اور درخواست گزاروں کو بھیجنےکی ہدایت کی۔
چیف جسٹس نے حکم نامے میں لکھوایاکہ عدالت کے سامنے التوا کی درخواست دائر کی گئی، التوا کی درخواست میں وکیل حامد خان کی خاندانی مصروفیات بتائی گئیں،کس قسم کی خاندانی مصروفیات ہیں یہ نہیں بتایاگیا جب کہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ بھی پیش نہیں ہوئے۔
تحریری فیصلے میں کہاگیا کہ 13 جنوری کےفیصلے کے خلاف نظر ثانی مانگی گئی، اگر خاندانی مصروفیات تھیں تو دوسرے وکیل کی خدمات لی جاسکتی تھیں، پریکٹس پروسیجر ایکٹ کی شق 6 کےتحت نظر ثانی میں وکیل تبدیل ہوسکتا ہے۔
دائر التوا کی درخواست مسترد کی جاتی ہے
چیف جسٹس نےفیصلے میں لکھاکہ حامد خان کی جانب سے دائر التوا کی درخواست مسترد کی جاتی ہے البتہ انصاف کےتقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے التوا دیاجاتا ہے، اب سماعت 21 اکتوبر بروز کو ہو گی اور مزید کوئی التوا نہیں دیاجائے گا۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی نے 9 جون 2022 کو انٹرا پارٹی انتخابات کرائےتھے جس کیس کو الیکشن کمیشن نےتقریباً ڈیڑھ سال تک گھسیٹنے کے بعد نومبر 2023 میں کالعدم قرار دے دیا تھا۔
23 نومبر 2023 کو جاری حکم میں الیکشن کمیشن نے سابق حکمران جماعت کو اپنے انتخابی نشان بلے سے محروم نہیں ہونے کے لیے نئے انتخابات کروانے کےلیے 20 دن کا وقت دیاتھا۔
وزیر اعظم کی دکی میں کان کنوں پر حملے کی مذمت، واقعے کی رپورٹ طلب
الیکشن کمیشن کا حکم ایک ایسے وقت میں آیاتھا جب عام انتخابات میں تقریباً دو ماہ باقی تھے اور سیاسی جماعتیں ملک بھر میں اپنی انتخابی مہم تیزی سے چلا رہی تھیں۔
اپنےمشہور انتخابی نشان کو برقرار رکھنے کےلیے بے چین پی ٹی آئی نے 10 دن سے بھی کم وقت لیا اور 2 دسمبر 2023 کو انٹرا پارٹی انتخابات کرائے گئےتھے۔
22 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں دوسری بار پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دےدیا جس کے عد ایک سیاسی جماعت کے اندرونی کام کی نوعیت کا پہلا خوردبینی جائزہ لیا گیا اور اسے آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کے لیے انتخابی نشان حاصل کرنے کے لیے نااہل قرار دیا گیا۔
الیکشن کمیشن نے مؤقف اختیار کیاتھا کہ پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کےلیے وفاقی الیکشن کمشنر کا تقرر نہیں کرسکتے تھے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلےکی وجہ سے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو آزاد حیثیت سے عام انتخابات میں حصہ لینا پڑا اور پارٹی کو اس سال 3 مارچ کو تیسری بار اپنا انٹرا پارٹی انتخابات منعقد کرناپڑا تھا۔