کرپٹو کرنسی بٹ کوائن سونے سے بھی مہنگی کیوں ہو گئی؟

کرونا سے دنیا میں پیدا ہونے والے معاشی بحران کے بعد کرپٹو کرنسی بِٹ کوائن اپنی قیمت میں ہوشربا اضافے کے باعث اب سونے، چاندی اور خام تیل کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے 2020 میں سب سے مہنگا اثاثہ یا ڈیجیٹل کرنسی بن گئی ہے۔ دنیا بھر میں کرونا لاک ڈاؤن کے بعد سے بٹ کوائن کی قدر و قیمت میں بے پناہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ مارچ 2020 میں چار ہزار ڈالرز تک بڑی گراوٹ کے باوجود بٹ کوائن کی قیمت گذشتہ چار ماہ کے دوران تقریباً تین گنا بڑھ چکی ہے۔ اسی عرصے کے دوران سونے کی قدر میں 13 فیصد اضافہ ہوا جب کہ چاندی کی قیمت 14 فیصد اور خام تیل کی قیمتیں 80 فیصد تک گر چکی ہیں۔
یاد رہے کہ بٹ کوائن کو سنہ 2009 میں ساتوشی ناکاموتو نے دنیا میں متعارف کروایا تھا اور آج عالم یہ ہے کہ سات سو سے زیادہ ورچوئل کرنسیاں انٹرنیٹ پر موجود ہیں اور ہر دن نئی کمپنیاں اپنی نئی کرنسی پیش کر رہی ہیں۔ ان سب ڈیجیٹل کرنسیوں میں اس وقت بٹ کوائن دنیا کی مہنگی ترین کرنسی بن چکی ہے اور اس کی قیمت سونے سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔
مارکیٹ تجزیہ کاروں کو یقین ہے کہ اپنی تخلیق کے بعد سے اب تک کے 11 سالوں میں بٹ کوائن کہلانے والی کرپٹو کرنسی کی قدر رواں سال میں اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو لے گی۔ دنیا بھر میں کرونا وبا کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کے بعد سونے اور بٹ کوئن کی قدر میں مارچ کے وسط سے بے پناہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کرونا وبا اور لاک ڈاؤن کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر کی معیشتیں سست روی کا شکار ہو گئیں اور سٹاک مارکیٹں تاش کے پتوں کی مانند ڈھیر ہو گئیں جس کے بعد سرمایہ کاروں کو اپنی دولت کے تحفظ کے لیے محفوظ اثاثوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اسی وجہ سے معیشت کی غیر یقینی صورت حال کے دوران سونے نے روایتی طور پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ تاہم مارکیٹ کے اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ بٹ کوئن کی محدود سپلائی نے اسے محفوظ اثاثوں کے طور پر بہترین انتخاب بنا دیا ہے۔
اس سے پہلے دسمبر 2018 میں بھی بٹ کوائن کی قدر میں 182 فیصد اضافہ دیکھا گیا تھا۔ ماہرین کے مطابق دیگر کرپٹو کرنسیز نے بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جیسا کہ ایتھیریم کی قدر میں رواں سال کے آغاز کے بعد سے 60 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
واضح رہے کہ بٹ کوئن انٹرنیٹ پر موجود دیگر کرنسیوں کی طرح ایک ورچوئل کرنسی ہے جو صرف آن لائن دستیاب ہوتی ہے۔ ایسی کرنسی کا اجرا کسی ملک کے سٹیٹ بینک کی بجائے ٹیکنالوجی کی دنیا سے منسلک ادارے کرتے ہیں جن کا مقصد سٹیٹ بنک کی طرف سے جاری کردہ کرنسیوں کی متبادل ایسی کرنسی پیش کرنا ہوتا ہے جس پر کسی کا کنٹرول نہ ہو۔۔اگرچہ دیگر کرنسیوں کی طرح اس کی قدر کا تعین بھی اسی طریقے سے ہوتا ہے کہ لوگ اسے کتنا استعمال کرتے ہیں۔اِن کرنسیوں کے نوٹ نہیں چھپتے اور انھیں حاصل کرنے کے لیے آپ کو کسی کرپٹو کرنسی کے ایکسچنج میں اکاؤنٹ کھولنا پڑتا ہے۔ اس کیلئے آپ اپنی ملک کی کرنسی ایکسچینج کو دے کر کرپٹو کرنسی حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ کواپنی کرپٹو کرنسی ایکسچینج کے اکاؤنٹ میں رکھنی پڑتی ہے یا پھر انھیں ایک ڈیجیٹل بٹوہ حاصل کرکے اس میں رکھنا پڑتا ہے۔ ڈیجیٹل والٹ کا ای میل اکاؤنٹ کی طرح ایڈریس ہوتا ہے جس پر لوگ آپ کو پیسے بھیج سکتے ہیں۔ یہ والٹ موبائل فون ایپ کی صورت میں بھی ملتے ہیں اور کمپیوٹر پر بھی انھیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بِٹ کوائن کی خرید و فروخت بھی کسی سائنس سے کم نہیں۔بٹ کوائن کی منتقلی کے عمل کے لیے ‘مِننگ’ کا استعمال ہوتا ہے جس میں کمپیوٹر ایک مشکل حسابی طریقہ کار سے گزرتا ہے اور 64 ڈیجٹس کے ذریعے مسئلے کا حل نکالتا ہے۔ ہر مسئلہ جو حل ہوجاتا ہے اس کے نتیجے میں ایک بٹ کوائن بنتا ہے۔ بٹ کوائن حاصل کرنے کے لیے صارف کے پاس بٹ کوائن کی معلومات ہونی چاہیے جو کہ 34-27 الفاظ اور ہندسوں کی لڑی ہوتی ہے۔ یہ ہندسے اور لفظ ورچوئل پوسٹ باکس کی مانند ہوتے ہیں۔بٹ کوائن کی معلومات کے لیے کوئی رجسٹر نہیں ہوتا اس لیے لوگ جب ان کی ترسیل کرتے ہیں تو اپنی شناخت چھپانے کے لیے انھیں استعمال کرتے ہیں۔یہ ایڈریسز بٹ کوائن کے والٹ میں محفوظ ہوتے ہیں جو کہ جمع پونجی کا حساب کتاب رکھتے ہیں۔
کرنسی کا ایک بنیادی استعمال تو خرید و فروخت یا اجرت دینا ہوتا ہے۔ تاہم فی الحال کرپٹو کرنسی سے خریداری نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ بہت محدود جگہوں پر استعمال ہوتی ہے۔ ممکن ہے مستقبل میں انہی سے خرید و فروخت ہو مگر ابھی ایسا نہیں ہے۔