کپتان ریاست مدینہ کو چوں چوں کا مربہ کیسے بنا رہے ہیں؟
چینی کیمونسٹ پارٹی کے قیام کی ایک صدی مکمل ہونے پر وزیرِاعظم عمران خان نے چینی نظام ریاست و حکومت کو جس طرح خراجِ تحسین پیش کیا اگر وہ انہی جذبات کا اظہار اب سے پچاس برس پہلے کرتے تو نہ صرف سرخوں کے کاسہ لیس قرار پاتے بلکہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ بھی کہلاتے۔ سی آئی ڈی ان کے پیچھے ہوتی اور وہ انڈر گراؤنڈ ہوتے۔
مگر وقت کی یہی خوبصورتی ہے کہ کل جو ناخوب ہوتا ہے وہ آج خوب ہو جاتا ہے۔ وگرنہ حبیب جالب کو نصف صدی قبل یہ نہ کہنا پڑتا:
چین اپنا یار ہے
اس پے جان نثار ہے
پر وہاں ہے جو نظام
اس طرف نہ جائیو
اس کو دور سے سلام
یہ کہنا ہے سینئر صحافی اور تجزیہ کار وسعت اللہ خان کا۔ وہ اہنے تازہ سیاسی تجزیے میں لکھتے ہیں کہ خان صاحب نے چینی صحافیوں سے گفتگو میں چینی نظام کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’اب تک ہمیں یہ بتایا گیا کہ مغربی جمہوریت سماج سدھارنے کا بہترین نسخہ ہے مگر چینی کیمونسٹ پارٹی نے ایک متبادل مثالیہ متعارف کروایا جس نے سماج میں میرٹ کے اصول کو بالا رکھتے ہوئے تمام مغربی جمہوریتوں کو مات دے دی۔ اب تک ہم یہی سمجھتے تھے کہ انتخابی جمہوریت ہی اہل و قابل قیادت کو اوپر لانے اور اسے جوابدہ بنانے کا بہترین راستہ ہے مگر چینی کمیونسٹ پارٹی نے اس تصورِ جمہوریت کے بغیر زیادہ بہتر نتائج حاصل کیے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ چین کا با صلاحیت افراد کو پرکھ کر اوپر لانے کا طریقہ ہمارے جمہوری نظام سے کہیں بہتر ہے۔ کپتان کا اصرار تھا کہ ہمارا سماج ہو کہ مغربی جمہوریتیں، ان کے ذریعے تبدیلی لانا اس لیے مشکل ہے کیونکہ وہ قوانین و ضوابط کے تابع ہیں۔ جمہوریت میں صرف اگلے پانچ برس کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔‘
وسعت اللہ خان وزیراعظم عمران خان کے ان ارشادات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب مجھ جیسے لال بھجکڑ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کیا خان صاحب ریاستِ مدینہ چینی ماڈل پر استوار کرنا چاہتے ہیں یا چینی ماڈل اور ریاستِ مدینہ کے تصور کو ایک ہی شے سمجھتے ہیں اور پھر اس میں ان کا پسندیدہ ’قائدِ اعظم اور علامہ اقبال‘ کا خواب کہاں ایڈجسٹ ہوتا ہے اور اسی ماڈل میں اسکینڈے نیویا کی فلاحی ریاست کا ماڈل کیسے گھسایا جا سکتا ہے۔
وسعت بتاتے ہیں کہ آسٹریلیا میں پلیٹی پس نامی ایک جانور پایا جاتا ہے۔ یہ واحد دودھ دینے والا جانور ہے جو بچے کے بجائے انڈے دیتا ہے۔ اس کی شکل بطخ جیسی ہوتی ہے جبکہ دھڑ لومڑی کی طرح۔ انگلیوں کی جگہ سمندری سیل جیسے پنجے ہوتے ہیں۔ گویا پلیٹی پس ایک ایسا جانور ہے جسے دیکھ کے چوں چوں کے مربے کے معنی بخوبی سمجھ میں آ سکتے ہیں۔ وسعت کہتے ہیں کہ امید ہے خان صاحب نے کبھی نہ کبھی پلیٹی پس کی تصویر ضرور دیکھی ہو گی۔ یہ صرف اور صرف آسٹریلیا میں پایا جاتا ہے۔
آج کل ویسے بھی دماغ کام نہیں کر رہا۔ جانے میں کیسے خان صاحب کے انٹرویو سے پلیٹی پس تک پہنچ گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ خان صاحب کتنے دن اور چینی نظام کے اسیر رہتے ہیں اور انھیں کل کلاں کوئی اور ماڈل اچھا نہ لگنے لگے۔
وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ خان صاحب چینی ماڈل کو کس حد تک اس ملک پر لاگو کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں یہ ایک الگ بحث ہے، مگر خان صاحب اس ملک کو جس سمت لے جانا چاہتے ہیں اس میں واقعی مغربی جمہوریت اور ان پر انگلی اٹھانے والے ازقسمِ چور ڈاکو سیاستدانوں کی کوئی جگہ نہیں۔ خان صاحب کو کھلا ہاتھ اور کھلا ٹائم درکار ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ خطہ جسے ہم برصغیر کہتے ہیں اس کے منہ کو پچھلے ایک سو برس میں مغربی جمہوریت کا خون لگ چکا ہے۔ اس جمہوریت میں کبھی ہم نے بنیادی جمہوریت کا پیوند لگایا، کبھی صدارتی جمہوریت کا تو کبھی پارلیمانی جمہوریت کا تو کبھی اسلامی سوشلزم کا تو کبھی کنٹرولڈ بی اے پاس جمہوریت کا تو کبھی ریموٹ کنٹرول جمہوریت کا تو کبھی شرعی و شورائی جمہوریت کا مگر کچھ بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ لیکن چینیوں نے ایسی کوئی استادی نہیں دکھائی۔ انھوں نے وقت کے حساب سے خود کو ڈھالا مگر بنیادی فلسفے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اس لیے وہاں جو بھی نظام ہے اس کے تسلسل نے وہ ثمرات پیدا کیے جو خان صاحب کو اس لمحے اچھے لگ رہے ہیں۔
وسعت اللہ کہتے ہیں کہ جو قوم اس قدر بے صبری ہو کہ ڈاکٹر کی دو گولیوں سے آرام نہ آئے تو حکیم کا دروازہ کھٹکھٹا دے اور حکیم کا جلاب راس نہ آئے تو جھاڑ پھونک والے کے در پر جا بیٹھے اور اس سے بھی حسبِ منشا کام نہ نکلے تو کالے جادو والے عامل بابا کے پاؤں دبانے لگے، تو پھر وہاں لیڈر شپ بھی ویسی ہی ابھرے گی۔
اس نفسیات کے ہوتے اگر دنیا کا بہترین نظام بھی نازل ہو جائے تو ہمارا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ ہمارے مقدر میں صرف تعریف ہی ہے یا دوسروں کی کرو ورنہ اپنی ہی کرتے رہو اور پھر یہ ورثہ اگلی نسل کے حوالے کر کے خود نکل لو۔ یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے۔