کپتان نےاسٹیبلشمنٹ کا بنایا ہائبرڈ نظام کیسے بکھیرا؟

سابق ڈی جی انٹر سروسز انٹیلی جنس لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو تبدیل کرنے پر وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے ساتھ جو تنازعہ کھڑا کیا وہ 2021 کا ایسا واقعہ تھا جس نے بالآخر ہائبرڈ نظام میں واضح دراڑیں ڈال دیں اور آج عمران خان اس سسٹم کے معماروں کی جانب سے فارغ کر دئیے جانے کے بعد یہ گلہ کرنے پر مجبور ہیں کہ نواز شریف کو وطن واپس لا کر چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنانے کی سازش کی جارہی ہے۔
2021 کی پاکستانی سیاست کا طائرانہ جائزہ لیتے ہوئے سینئر صحافی فہد حسین کہتے ہیں کہ سال کا سب سے نتیجہ خیز تنازع ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا رہا کیونکہ اس ایک واقعے نے ملکی سیاست کا رخ تبدیل کر دیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری سے جڑے مفادات کے حجم کی وجہ سے اب تک اس کے آفٹر شاکس آنے جاری ہیں۔ انکا کہنا یے کہ اب بڑے واضح اشارے مل رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ترازو کے پلڑے بیلنسڈ کرنا چاہتی ہے تاکہ سیاست میں توازن واپس لایا جاسکے۔ اسکے نتائج آنے والے ہفتوں میں نظر آئیں گے، لیکن اسٹیبلشمنٹ نے بڑے پرزور طریقے سے بتا دیا ہے کہ فوج میں تقرر اور تبادلے سیاسی قیادت کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ یہ پیغام تمام متعلقہ لوگوں تک خاصے واضح انداز میں پہنچ گیا ہے۔ فید حسین کہتے ہیں کہ ملکی سیاست میں اس سال وہ سب کچھ نظر آیا جو نہ ہی ہوتا تو بہتر تھا۔ حکومت گورننس نہیں دکھا سکی، اپوزیشن مسائل کو اجاگر نہیں کر سکی اور اسٹیبلشمنٹ اسے سنبھالنے میں ناکام رہی جسے وہ۔لائی تھی۔ غیر یقینی کی اس کیفیت میں سب واپس ڈرائنگ بورڈ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انہوں نے کوئی سبق بھی حاصل کیا یے؟ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ پی ٹی آئی اپنی 2018 کی فتح سے کبھی سنبھل ہی نہیں پائی۔ جس دن سے وزیر اعظم نے اگست 2018 میں وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا ہے، یہ نیچے ہی نیچے جا رہی ہے۔ اس کے بعد سے آنے والے ہر سال میں انکی حکومت کی کارکردگی پچھلے سے بدتر رہی، اس کی ساکھ پہلے سے کم ہوئی ہے اور حکمرانی کے لئے اس کی اہلیت پر پہلے سے زیادہ سوالات اٹھ رہے ہیں۔ بقول فہد، اگر عمران نے سال 2022 اقتدار میں نکال بھی لیا تو یہ انکی حکومت اور بھی کمزور ہو جائے گی اور پارٹی ختم ہو جائے گی۔ اگر اس حوالے سے خان صاحب کو کسی ثبوت کی ضرورت تھی تو خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات میں ہوئی شکست نے وہ بھی فراہم کر دیا ہے۔
عمران خان کے دور اقتدار میں2021 حکومت اور عوام دونوں کے لیے انتہائی مشکل ثابت ہوا۔ گو کہ مہنگائی کا جن پہلے بھی موجود تھا لیکن اس سال اس نے حقیقتاً لوگوں کے گھریلو بجٹ ہلا کے رکھ دیے اور حکومت کی بچی کھچی عزت بھی پامال کر دی۔ اشیائے ضروریہ کی ترسیل کو مینیج کرنے میں حکومت کی نااہلی، اور جس ڈانواں ڈول انداز میں اس نے معیشت کا پہیہ چلایا، اس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا اور آج بھی اسکے خاتمے کی کوئی امید نظر نہیں آتی کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔بقول فہد حسین، دوسری جانب حکومت ہر چیز کا الزام پچھلی حکومت پر ڈالنے میں مصروف رہی اور آج ساڑھے تین برس بعد بھی اسی کام میں مصروف ہے۔ یوں کپتان حکومت بارے اب یہ تائثر مظبوط ہو چکا ہے کہ وہ ملک چلانے کی اہل نہیں ہے۔ 2018 سے اب تک حکومت نے صرف اسی طرح ملک چلایا ہے کہ غیر ملکی قرضے لیتی گئی اور ان کی واپسی کا بوجھ ٹیکسوں کی صورت میں عوام پر ڈالتی گئی ہے جس کے نتیجے میں آج ان کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔
ان حالات میں سال 2022 کے آغاز پر کپتان حکومت کے لیے پہاڑوں سی مشکلات سر اٹھا رہی ہیں اور یہ بمشکل خود کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ عمران کے سیاسی مخالفین ایک تازہ حملے کے لئے تیار ہو رہے ہیں۔ حکومت کو اپنی بقا کی جنگ لڑنی ہے لیکن سوال یہ یے کہ وہ اس قابل بھی ہے اور کیا اسنے کوئی سبق بھی سیکھا ہے؟ دوسری طرف نواز لیگ اب ناگواری سے تسلیم کر رہی ہے کہ اسنے کچھ سبق سیکھے ہیں۔ پورا سال پارٹی حکومت سے بھی لڑتی رہی، خود سے بھی، اور دونوں ہی محاذوں پر کامیاب نہیں ہو پائی۔ پیپلزپارٹی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد نواز لیگ نہ تو PDM کے پلیٹ فارم سے اور نہ ہی مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے پنجاب اور وفاق کی حکومتیں گرانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ پارٹی میں بیانیوں کا ٹکراؤ بار بار سر اٹھاتا رہا اور ایک دوسرے پر الزام تراشی بھی سامنے آئی۔ ایسا کہیں سے نہیں لگ رہا تھا کہ یہ جنگ تھمنے میں آئے گی۔ بجٹ کے بعد لگ رہا تھا کہ PTI اپنی مدت کے اختتام تک بغیر کسی رکاوٹ کے بگٹٹ بھاگتی چلی جائے گی جب کہ PMLN اپنے ہی تضادات میں الجھی رہے گی۔لیکن ایک غیر متوقع امداد تب آئی جب خود وزیر اعظم عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے پنگا ڈالنے کا فیصلہ کیا۔
فہد حسین کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی سربراہ کی تعیناتی پر کھڑے ہوئے تنازع نے مسلم لیگ ن کو وہ خلا فراہم کر دیا جو اس کو مل نہیں رہا تھا۔ تاہم، PTI کو اقتدار میں لانے پر اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنانے والی PMLN ابتدائی ہفتوں میں کنفیوزڈ تھی کہ اب اس سے بات کیسے کرے۔ لیکن اب لگ رہا ہے کہ پارٹی قیادت کو یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ اگر اسے واپس اقتدار میں آنا ہے تو کمرے میں موجود ہاتھی سے مثبت انداز میں ڈیل کرنا ہوگا۔ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کوئی ڈیل ہو گئی ہے لیکن یہ قدرے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ پارٹی نے سال کا آغاز جس مقام سے کیا تھا، اس کا اختتام اس سے بہتر مقام پر کر رہی ہے۔ دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ بھی بہت سی اونچ نیچ سے گزری ہے اور اس نے بھی کچھ نہ کچھ سبق ضرور سیکھے ہوں گے۔ لیکن سال 2021 کا سب سے نتیجہ خیز تنازع ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا ہی تھا جس نے سیاست کا رخ تبدیل کر دیا اور ہائیبرڈ نظام میں واضح دراڑ ڈال دی۔