کیا سابق کرکٹر سدھو اب کانگرس چھوڑنے والے ہیں؟


میدان کرکٹ سے سیاست میں آنے والے نوجوت سنگھ سدھو عرف سدھو پا جی نے کانگرس پنجاب کی صدارت سے استعفیٰ دے کر اپنی پارٹی کو ایک بڑے بحران سے دوچار کر دیا ہے اور اب یہ اطلاعات ہیں کہ وہ کانگریس چھوڑ کر عام آدمی پارٹی میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ پنجاب کے سابق وزیر اعلی امریندر سنگھ کے استعفے کے بعد سدھو کو بطور چیف منسٹر فیورٹ امیدوار قرار دیا جا رہا تھا لیکن ایسا نہیں ہو پایا اور کانگریس نے ان کی بجائے کسی اور کو وزیر اعلی بنا دیا۔ سدھو سمجھتے ہیں کہ پنجاب کانگریس کا صدر ہونے کے ناطے وزارت اعلی ان کا حق تھا لہذا اب جب یہ عہدہ کسی اور کو دیا جا چکا ہے تو انہیں بطور پنجاب صدر بھی برقرار نہیں رہنا چاہئے۔

یاد رہے کہ بھارتی صوبے پنجاب میں ان دنوں زبردست سیاسی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ حکمران کانگریس پارٹی کے صدر اور سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو نے اپنے عہدے سے استعفے کا اعلان کر کے سب کو حیران کر دیا ہے، اُن کے فیصلے کو کانگریس کی اعلیٰ قیادت کے لیے بھی ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔سدھو نے کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کو ایک خط میں لکھا ہے کہ انسان کے کردار کا زوال معاملات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے سے شروع ہوتا ہے۔ میں پنجاب کے مستقبل اور پنجاب کے بہبود کے ایجنڈے کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کر سکتا لہٰذا میں بطور پنجاب کانگریس کمیٹی کا صدر استعفیٰ دیتا ہوں لیکن میں کانگریس کی خدمت کرتا رہوں گا ، انہوں نے اپنے استعفے کو منظور ہونے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر پوسٹ بھی کر دیا۔

دوسری جانب پنجاب کے اسمبلی انتخابات ہونے میں صرف چند ماہ باقی رہ گئے ہیں، نوجوت سنگھ سدھو کے استعفے کو حکمران کانگریس پارٹی کے لیے ایک بڑا دھچکا سمجھا جا رہا ہے۔ پارٹی کے اہم رہنماؤں نے ماضی قریب میں سدھو کو کانگریس کے پنجاب چیپٹر کا صدر مقرر کرنے سے پہلے متنبہ کیا تھا تاہم پریانکا گاندھی نے سدھو کی بھرپور حمایت کی تھی جس کے بعد تمام تر مخالفت کے باوجود نوجوت سدھو کو ریاستی کانگریس کا صدر بنا دیا گیا۔ لیکن کانگریس پارٹی کے سامنے اب یہ سوال ہے کہ وہ آئندہ اسمبلی الیکشن میں کس کو وزیراعلیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش کرے گی، سدھو کے استعفے نے راہول گاندھی اور پریانکا گاندھی کے سیاسی طور پر درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت پر بھی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ سدھو کا استعفیٰ اس لیے بھی حیران کن ہے کہ نئے وزیراعلیٰ پنجاب چرن جیت سنگھ چنئی کو نوجوت سدھو کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔

ریاستی کانگریس میں حالیہ اتھل پتھل کے نتیجے میں وزیراعلیٰ امریندر سنگھ کو اپنے عہدہ سے استعفیٰ دینے کے لیے مجبور ہونا پڑا تھا۔ ان کے استعفے کے پیچھے بھی نوجوت سدھو کا ہاتھ تھا جو کہ خود وزیر اعلی بننا چاہتے تھے لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ امریندر سنگھ نے سدھو کی بجائے چرن جیت سنگھ چنئی کی حمایت کر دی۔ امریندر سنگھ نے سدھو کی مخالفت کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وہ پاکستانی آرمی چیف جنرل باجوہ اور وزیراعظم عمران خان کے ذاتی دوست ہیں لہذا قابل اعتبار نہیں۔

چرن جیت کے وزیراعلیٰ بننے کے باوجود نوجوت سدھو کو ”سپر وزیر اعلیٰ” قرار دیا جا رہا تھا تاہم وہ اپنی پسند کے افراد کو کابینہ میں شامل نہ کیے جانے اور بعض ‘داغ دار‘ وزیروں کو شامل کرنے پر ناراض ہو گے تھے کیونکہ وہ ‘بدعنوانی‘ کے خلاف کافی شدت سے آواز بلند کر رہے تھے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے نوجوت سدھو نے اپنے استعفے میں اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کا جو ذکر کیا ہے وہ اسی جانب اشارہ کرتا ہے۔

یاد رہے کہ اس سے پہلے وزیر اعلی امریندر سنگھ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتے وقت کانگرس پارٹی سے بھی استعفیٰ دے دیا تھا لہٰذا سدھو کا استعفی کانگریس پارٹی کے لیے ایک اور بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب امریندر سنگھ نے دہلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اہم رہنماؤں وزیر داخلہ امیت شاہ اور پارٹی صدر جے پرکاش نڈّا سے ملاقات کی ہے۔ گوکہ امریندر سنگھ کے معاون نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ یہ ان کا نجی دورہ ہے تاہم یہاں قیاس آرائیاں زوروں پر ہیں کہ کانگریس کے سابق رہنما امریندر سنگھ بی جے پی میں شامل ہونے والے ہیں اور حکمران جماعت انہیں مودی کابینہ میں کوئی اہم وزارت بھی دے سکتی ہے۔

پنجاب میں اس تازہ سیاسی پیشرفت کے دوران دہلی کی حکمران جماعت عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجریوال پنجاب کے دورے پر جا رہے ہیں اور عام آدمی پارٹی کے بعض رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نوجوت سنگھ سدھو عام آدمی پارٹی میں شمولیت کے بعد پنجاب کے وزیراعلیٰ کے امیدوار بن سکتے ہیں۔

Back to top button