کیا ملالہ کو رگیدنے والوں کے اپنے گھر میں ماں، بہن نہیں؟
آج اگر نوبیل پرائز جیت کر دنیا بھر میں پاکستان کا سر فخر سے بلند کرنے والی ملالہ یوسفزئی کے چاروں طرف ایکسرے پلانٹ نصب ہیں تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں۔ سوچئے اگر پاکستانی تاریخ پر اثرانداز ہونے والی فاطمہ جناح اور بے نظیر بھٹو جیسی عظیم ترین عورتیں نہیں بخشی گئیں تو ہمارے اردگرد کی ایک عام عورت کس کھیت کی مولی ہے.
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار وسعت اللہ خان اپنے تازہ تجزیے میں کہتے ہیں کہ آپ دورِ جاہلیہ کی بیسیوں خرابیاں گنوا سکتے ہیں۔ بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کی روایت پر بارِ صد تف کاری کر سکتے ہیں۔ مگر انہیں ایک داد تو بنتی ہے۔ عرب کے لوگ اپنے حریفوں پر ہر طرح کی پھبتی کستے تھے، ہجو کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے تھے مگر اپنے دشمن تک کی عورت کا نام لے کر برسِرِ عام دشنام طرازی کرنے کو نامردی گردانتے تھے۔ کبھی کسی عرب میں یہ خو جاگتی بھی تھی تو سماج کی گھورتی آنکھیں اس کا حوصلہ پست کر دیتی تھیں۔ لیکن آج کسی کی ماں بہن اور بیٹی پر انگلی اٹھانے سے پہلے کوئی اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
وسعت یاد دلاتے ہیں کہ جب اسلام آیا تو بیٹے باپ کے احترام میں کھڑے ہوتے تھے، مگر تب بھی باپ اپنی بیٹی کے احترام میں کھڑا ہو جاتا تھا۔ یہ کوئی ذاتی لگاؤ یا خون کی محبت کا معاملہ نہیں تھا بلکہ چاردانگِ عالم کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ نیا اخلاقی نظام کن بنیادوں پر استوار ہونے جا رہا ہے۔ اس نئے نظام کے تحت درخت، بزرگ، عورت اور بچے انتقام کے دائرے سے یکسر خارج کرنے کا فرمان جاری ہوا۔ یہ نبی پاک ہی کی تو تعلیم ہے کہ کوئی بات نامکمل یا سیاق و سباق سمجھے بغیر بنا تحقیق منہ سے مت نکالو۔ جتنی بات یا واقعہ ہے اتنا ہی بیان کرو۔ اس میں سے لذت و ازیت کشید کرنے کے لیے یا زیبِ داستاں کے لیے ہرگز بڑھاوا مت دو۔ دلیل کا مقابلہ ذاتی جذبات کی شمشیر سے مت کرو۔ بے دلیل ہو جاؤ تو سامنے والے کی دلیل تسلیم کرو ورنہ خاموشی اختیار کر لو۔ یہ نہ ہوا تو سارا عذاب مفت میں تمہاری گردن پر ہو گا۔
وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ امت کوئی بھی ہو وہ ان تعلیمات کو برحق تو سمجھتی ہے البتہ عمل کا بار اٹھانے پر ہرگز آمادہ نہیں ہوتی۔ کبھی آبا و اجداد کے رواجی برگد تلے پناہ لیتی ہے، کبھی اصل شریعت کے اندر سے اپنی سہولت کی شریعت نکال لیتی ہے۔ اپنی خواہشات فتاوی کے دھاگوں سے سی کر من مرضی کے پہناوے تیار کرتی رہتی ہے۔
کبھی اصل پیغام کے اندر پوشیدہ روح کو کج بحثی کے اوزار سے زخمی کر کے بھگانے کے بعد بے روح ڈھانچے کی پوجا شروع کر دیتی ہے۔ یہی جبلی ٹیڑھ تو ہے جسے سیدھا کرنے کے لیے پے درپے انبیا اتارے جاتے رہے۔ مگر پرنالہ آج بھی وہیں کا وہیں ہے۔ آج جو بھی منظر ہے اسی نظریاتی کج رویانہ آپا دھاپی کا نتیجہ ہے۔ گویا مناقفت سکہ رائج الوقت ہے۔ وسعت کہتے ہیں کہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کسی بھی سماج کی ذہنی صحت جانچنی ہو تو بس یہ دیکھ لو کہ وہاں کمزور طبقات، عورت اور بچوں کا کس قدر خیال رکھا جاتا ہے۔ ہم خود مغرب کی عورت کے استحصال کے مقابلے میں مشرق کی عورت کی عظمت کے گن گاتے نہیں تھکتے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم یہ گن کیوں گاتے ہیں؟ کیا ہمارے ہاں جو ماں بہن کی گالیاں مروج ہیں ان میں عورت کا کردار مغربی یا کسی اور سماج کی گالیوں سے کم ہے؟ کیا ہم عورت کے حجاب و پہناوے سے زیادہ اپنی نگاہ کے پردے پر کسی اور سماج سے زیادہ زور دیتے ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہم انتقام کی آگ میں اندھے ہونے کے باوجود مرد، عورت اور بچے کی تمیز برقرار رکھتے ہیں؟
کیا ہمارے قوانین دیگر ریاستوں کے قوانین سے زیادہ عورت دوست ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہمارے ہاں عورتوں اور بچوں کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کو سزائیں دینے کا تناسب کسی اور ملک کے مقابلے میں مثالی ہے؟ کیا ہم مرد سے زیادہ عورت کی لازمی تعلیم کے حق میں ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہمارے ہاں روزمرہ خانگی مسائل، رشتے ناتے کے امور، جائیدادی بٹوارے جیسے بنیادی معاملات میں عورت سے پوچھنے کی شرح کسی بھی دیگر سماج کے مقابلے میں حوصلہ افزا ہے؟ کیا غیرت و بے غیرتی کے امتحان میں اپنے بیٹے یا بیٹی کو ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں یا پھر ایک کے لئے آنکھیں ضرورت سے زیادہ کھلی رکھتے ہیں اور دوسرے کے لیے مکمل بند کر لیتے ہیں؟
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہماری عورت اور ہمارا بچہ دیگر کسی بھی معاشرے کے مقابلے میں گھر کے اندر یا باہر زیادہ محفوظ ہے؟ وسعت اللہ خان کے مطابق اگر ان سوالات میں سے پچاس فیصد کے جوابات بھی اثبات میں ہیں تو پھر اس سماج کو میرا پرخلوص سلام۔ لیکن ایسا یے نہیں۔ ذرا تصور کریں اگر فاطمہ جناح محمد علی جناح کی ہمشیرہ نہ ہوتیں تو کیا ان کے تاحیات شادی نہ کرنے کے فیصلے کو بنا چے مے گوئیوں کے یہ سماج اتنا ہی احترام دیتا؟ بے نظیر بھٹو شہید بھی ایک بڑے باپ کی بیٹی تھی مگر ان کے ایک ایک قدم کی جانچ کے لیے ریاستی خوردبینیں فٹ تھیں۔ چنانچہ آج اگر ملالہ یوسف زئی کے چاروں طرف ایکسرے پلانٹ نصب ہیں تو حیرت کی بات نہیں؟ سوچیے اگر تاریخ پر اثرانداز ہونے والی عظیم ترین عورتیں نہیں بخشی گئیں تو ہمارے اردگرد کی ایک عام عورت کس کھیت کی مولی ہے؟