کیا پاکستان ایک اور سری لنکا بننے سے بچ پائے گا؟
سینئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا ہے کہ اس وقت پاکستان کے معاشی حالات اچھے نہیں ہیں اور سری لنکا جیسی صورتحال پیدا ہونے کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے لیکن ملک کو بچانے کی بجائے سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی مشکل شرائط قبول کرنے سے اس وقت مہنگائی منہ زور ہو چکی ہے جس سے ملک کی اکثریتی غریب آبادی کے لئے پیدا ہونے والے مسائل کا ادراک کرنا بھی مشکل ہے، لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کے لئے بھی زندگی بوجھ بنتی جا رہی ہے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ گرانی کی حالیہ لہر نے تو اچھے خاصے آسودہ حال لوگوں کی زندگی بھی پہلے سے مشکل کر دی ہے۔ گیس بھی مہنگی، بجلی بھی مہنگی اور اشیائے خورونوش بھی جس کے اثرات آنے والے ہفتوں میں اور بھی ذیادہ سامنے آئیں گے۔ حکومت نے بجٹ بھی آئی ایم ایف کی شرائط کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بنایا ہے کیونکہ وہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے بلیک میل ہو رہی یے؟ بہرحال معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان کو سری لنکا بننے سے بچنے کے لئے آئی ایم ایف کی مدد ہر حال میں درکار ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی پالیسی کیا ہے اور اسکا سمجھ داری اور حکمت سے مقابلہ کرنے کے لئے کیا پاکستانی قوم تیار ہے؟
بقول انصار عباسی، اس سوال کا جواب یقیناً نفی میں ہوگا اور یہ اس صورتِ حال کا افسوس ناک ترین پہلو ہے۔ آج آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو بھی گیا تو پاکستان کا مستقبل پھر بھی غیر محفوظ رہے گا کیوں کہ یہ تو فوری خطرے کو ٹالنے کی کوششیں ہیں۔ پاکستان کا مستقبل اگر محفوظ بنانا ہے تو اسکی معیشت کو مضبوط بنائے بغیر ایسا ممکن نہیں، اور معیشت کی مضبوطی کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو جو ہمارے لئے ایک خواب بن کر رہ گیا ہے ۔ سیاستدان ہیں کہ ان کی لڑائیاں ہی ختم نہیں ہو رہیں بلکہ اب تو ان لڑائیوں کی نوعیت بھی ایسی ہو چکی ہے کہ جن کی بنیاد میں نفرت اور ایک دوسرے کے لئے عدم برداشت صاف دکھائی دیتی ہے۔ سیاست دانوں میں جاری جنگ اقتدار کے حصول کی ہے اور اس کے لئے جائز ناجائز کی کوئی تمیز نہیں۔ کبھی ایک اور کبھی دوسرا اپنے اقتدار کے لئے مقتدر اداروں کی مدد لیتا ہے۔ جس کو یہ مدد مل جائے وہ خوش اور جسے نہ ملے وہ ناراض ہو کر نفرت پر مبنی بیانیہ لے کر چلنا شروع کرتا ہے۔ اس ڈھنگ میں سویلین بالادستی کے جو نعرے لگتے ہیں، وہ محض سیاسی نعرے بازی اور کہنے کی باتیں ہیں۔ اصل کوشش سب کی یہی ہے کہ طاقت ور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو کس طرح اپنی طرف متوجہ کیا جائے؟ ہماری بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی اس کھیل کا حصہ بنے رہنا چاہتی ہے اور یوں بہتری کی بجائے ہمارے سیاسی نظام ایک ایسے بگاڑ کا شکار ہو گیا جس کی وجہ سے ہم بد سے بدتر کی طرف سفر کرتے رہے۔
انصار عباسی کا کہنا ہے کہ آج حالات ایسے ہیں کہ پاکستان سری لنکا جیسے بدترین معاشی حالات کی طرف بڑھ رہا ہے، ملک اگر دیوالیہ ہونے سے بچ بھی گیا تو تھوڑے عرصہ کے بعد اسے پھر انہی حالات کا سامنا ہو گا لیکن سیاستدانوں کی بے حسی ایسی ہے کہ امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ عمران خان نے پہلے سے موجود سیاسی اختلافات کو دشمنی میں بدلنے میں اہم کردار ادا کیا اور آج وہ پاکستان کے سب سے مقبول سیاسی رہنما ہونے کے باوجود جو سیاست کر رہے ہیں وہ بفرت پر مبنی اور معاشرےکی تقسیم کی سیاست ہے۔ عمرانی سیاست کا ایک ہی نکتہ ہے کہ سگر میں نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کرنے کا حق صرف اُنہی کا ہے، باقی سب چور ڈاکو ہیں اور اسی لئے وہ فوج سے توقع رکھے ہوئے ہیں کہ ماضی کی طرح وہ ایک مرتبہ پھر اُن کو حکومت میں لانے اور دوسروں کو اقتدار سے نکالنے میں اُن کا ساتھ دے۔ دوسری طرف حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کا اتحاد ہی عمران خا کی مخالفت میں بنا تھا لہذا ان کی واپسی بہت مشکل لگتی ہے۔ پاکستان کی ضرورت ہے کہ یہ دونوں فریق آپس میں بات کریں۔ ملک کا سوچیں، معیشت اور عوام کی حالتِ زار کو دیکھیں لیکن افسوس کے سیاسی نعروں میں تو یہ سب کچھ ہو گا لیکن عملاً آپس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ نفرتوں اور دوریوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس صورتحال کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں آنے والے دنوں میں سیاسی عدم میں اور بھی اضافہ ہو گا اور معاشی مشکلات کے حل کے لئے ایک متفقہ چارٹر آف اکانومی کا خواب، خواب ہی رہے گا۔ یوں جو سیاسی تقسیم اور نفرت پاکستان اور اسکی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، اُس کے علاج کے لئے کہیں سے کوئی کوشش ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔