اولمپکس میں پاکستانی کھلاڑیوں کی مایوس کن کارکردگی

جاپان میں منعقد ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں اب تک پاکستانی دستے کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے اور اس میں شامل 10 میں سے نو کھلاڑی اور ایتھلیٹ بغیر کوئی میڈل جیتے مقابلوں سے باہر ہو چکے ہیں تاہم اب باقی رہ جانے والے اکلوتے ایتھلیٹ ارشد ندیم سے تمام امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں۔پیر کی صبح پاکستانی نشانہ باز غلام مصطفیٰ بشیر 25 میٹرز ریپڈ فائر پسٹل ایونٹ کے دوسرے مرحلے میں خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے جس کے بعد وہ بھی فائنل مرحلے تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
اتوار کے روز غلام مصطفی بشیر نے پہلے مرحلے میں چھٹی پوزیشن حاصل کی تھی جبکہ ان کے ساتھی خلیل اختر 16ویں نمبر پر رہے تھے تاہم دوسرے مرحلے کی کارکردگی کے بعد غلام مصطفیٰ بشیر 10ویں نمبر پر آ گئے جبکہ تمغہ حاصل کرنے کے مقابلے کے لیے انھیں پہلی چھ پوزیشنز میں سے ایک حاصل کرنی تھی۔
دوسری جانب، پاکستانی ایتھلیٹ نجمہ پروین جو دو اولمپکس مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی خاتون ہیں، خواتین کی 200 میٹر ریس میں پہلے ہیٹ مقابلے میں مایوس کن کارکردگی دکھاتے ہوئے مقابلوں سے باہر ہو چکی ہیں۔نجمہ پروین کو اس ہیٹ مقابلے میں پہلی تین میں سے ایک پوزیشن حاصل کرنی تھی، تاہم وہ ہیٹ مقابلے میں حصہ لینے والی سات ایتلھیٹس میں سے ساتویں نمبر پر آئیں۔یہ کارکردگی اس لیے بھی مایوس کن ہے کیوںکہ نجمہ کے پاس 200 میٹر کا قومی ریکارڈ 23 اعشاریہ چھ نو سیکنڈ بھی موجود ہے تاہم اس ریس کو وہ 28 اعشاریہ ایک دو سیکنڈ میں مکمل کر پائیں۔
پاکستان کی نمائندگی کرنے والے 22 رکنی دستے میں 10 ایتھلیٹس اور 12 آفیشلز شامل ہیں۔ اب تک مقابلوں سے باہر ہونے والوں میں نشانہ باز خلیل اختر، غلام مصطفیٰ بشیر اور گلفام جوزف کے علاوہ ایتھلیٹ نجمہ پروین، ویٹ لفٹر طلحہ طالب، بیڈمنٹن کھلاڑی ماحور شہزاد، تیراک محمد حسیب طارق اور بسمہ خان اور جوڈوکا شاہ حسین شاہ شامل ہیں۔
پاکستان کوئی میڈل جیتنے میں تو کامیاب نہیں ہوا تاہم اب تک کی سب سے بہترین کارکردگی دکھانے والے ایتھلیٹ ویٹ لفٹر طلحہ طالب ہیں جنھوں نے 67 کلوگرام کیٹیگری میں یوں تو پانچویں پوزیشن حاصل کی لیکن وہ میڈل جیتنے کے انتہائی قریب تھے۔اب آئیے پہلے یہ جانتے ہیں کہ جن ایتھلیٹس نے ابھی مقابلوں میں حصہ لینا ہے وہ کون ہیں اور ان کے مقابلے کس دن ہیں اور پھر پاکستانی ایتھلیٹس کی اب تک کی کارکردگی پر نظر دوڑاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے مقابلوں میں کیا کارکردگی دکھائی۔
چوبیس سال کے ارشد ندیم جیولن تھرو میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔ وہ ٹوکیو اولمپکس میں براہ راست کوالیفائی کرنے والے واحد پاکستانی کھلاڑی ہیں اور پاکستان کے لیے میڈل جیتنے کی ’واحد امید‘ بھی قرار دیے جا رہے ہیں۔
سنہ 2019 میں اس وقت کے پاکستان ایتھلیٹکس فیڈریشن کے صدر میجر جنرل ریٹائرڈ محمد اکرم ساہی نے بی بی سی اردو کے نامہ نگار عبدالرشید شکور سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارشد ندیم پاکستان کی تاریخ میں وہ پہلے ایتھلیٹ ہیں جنھوں نے براہ راست اولمپکس کے لیے کوالیفائی کیا ہے ورنہ ہمیشہ پاکستانی ایتھلیٹس وائلڈ کارڈز کی بنیاد پر اولمپکس میں حصہ لیتے آئے ہیں۔
اس کا سبب 2019 میں نیپال میں منعقدہ ساؤتھ ایشین گیمز میں ان کی شاندار کارکردگی ہے جب انھوں نے جیولن تھرو میں 86.29 میٹرز دور نیزہ پھینک کر نہ صرف قومی سطح پر بلکہ ساؤتھ ایشین گیمز کا نیا ریکارڈ قائم کیا تھا اور طلائی تمغہ حاصل کیا تھا۔پاکستان واپڈا سے منسلک ارشد ندیم کا تعلق میاں چنوں سے ہے۔ انھوں نے سنہ 2018 میں جکارتہ میں منعقدہ ایشین گیمز میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔ارشد سنہ 2017 کی اسلامک سالیڈیرٹی گیمز اور سنہ 2018 کی کامن ویلتھ گیمز میں بھی پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ ارشد ندیم 2019 میں قطر میں ہونے والی ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ارشد ندیم کا گروپ مقابلہ چار اگست کو ہے اور اگر وہ اس میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے اگلے راؤنڈ تک رسائی حاصل کرتے ہیں تو ان کا اس حوالے سے فائنل مقابلہ سات اگست کو ہو گا۔
21 برس کے طلحہ طالب ویٹ لفٹنگ میں 67 کلوگرام کیٹگری میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے اور شاید ہی کسی کو معلوم تھا کہ 46 برس بعد پہلی مرتبہ کسی پاکستانی ویٹ لفٹر کی اولمپکس میں شرکت اتنی نمایاں ہو جائے گی۔گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان ویٹ لفٹر نے مقابلے کے پہلے راؤنڈ میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تینوں ہی کوششوں میں کامیاب رہے اور پہلے مرحلے کے اختتام پر دوسرے نمبر پر تھے۔انھوں نے کچھ لمحوں کے لیے ہی سہی لیکن پوری قوم کی امید بندھا دی۔ اکثر کو تو یہ یقین ہو چلا تھا کہ پاکستان بالآخر 29 سالوں بعد اولمپک میڈل جیتنے میں کامیاب ہو پائے گا تاہم دوسرے راؤنڈ میں ان کی پہلی کوشش کامیاب نہ ہو سکی اور وہ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جانے کی وجہ سے 166 کلوگرام وزن نہ اٹھا پائے۔
لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی اگلی دو کوششوں میں انھوں نے پہلے 166 اور پھر 170 کلو گرام وزن اٹھانے میں کامیاب ہوئے اور پہلے راؤنڈ کے 150 کلوگرام کے وزن کے ساتھ مجموعی طور پر 320 کلوگرام وزن اٹھانے کے بعد کچھ دیر کے لیے پہلی پوزیشن حاصل کر لی۔اس موقع پر ان کے کانسی کا تمغہ جیتنے کی امید پھر بھی قائم تھی لیکن اطالوی ویٹ لفٹر نے اپنی آخری کوشش میں حیران کن طور پر 177 کلو وزن اٹھا کر ان کی یہ امید بھی چھین لی لیکن طلحہ طالب کا نام اب یقیناً عام طور پر ایتھلیٹس کو نظر انداز کرنے والی قوم کو سالوں یاد رہے گا۔
بسمہ خان نے 30 جولائی کو تیراکی کے 50 میٹرز فری سٹائل ایونٹ میں حصہ لیا لیکن وہ ابتدائی مقابلے میں ہی ناکام رہیں۔انھوں نے مقررہ فاصلہ 27.78 سیکنڈ میں طے کیا اور اپنی ہیٹ میں شامل آٹھ تیراکوں میں سے ساتویں نمبر پر رہیں۔وہ اس سے قبل ورلڈ ایکیوٹکس چیمپئن شپ اور ایشین گیمز میں بھی پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں تاہم ان مقابلوں میں وہ بھی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں تھی تاہم سنہ 2019 میں ہونے والی ساؤتھ ایشین گیمز میں انھوں نے دو سو میٹرز انفرادی میڈلے میں چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔بسمہ خان کی بڑی بہن کرن خان بھی انٹرنیشنل مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں جن میں سنہ 2008 کے بیجنگ اولمپکس بھی شامل ہیں۔
ماحور شہزاد بیڈمنٹن میں اولمپکس مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی پاکستانی کھلاڑی تھیں تاہم وہ پہلے میچ میں جاپان کی عالمی نمبر پانچ اکانے یاماگوچے کے خلاف تو خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکیں، لیکن اپنے دوسرے میچ میں انھوں نے انگلینڈ کی ورلڈ نمبر 26 کرسٹی گلمور کے سامنے اچھا مقابلہ کیا لیکن وہ یہ میچ بھی دو کے مقابلے میں صفر سیٹس سے ہار گئیں۔ماحور اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں پاکستان کے دستے کی سربراہی کر رہی تھیں۔ ماحور اس سے قبل متعدد بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ انھوں نے سنہ 2017 اور 2019 میں ہونے والا پاکستان انٹرنیشنل ایونٹ جیتا تھا۔ وہ اس وقت عالمی رینکنگ میں 133ویں نمبر پر ہیں۔
بیڈمنٹن کے کھیل کی نگراں عالمی تنظیم بیڈمنٹن ورلڈ فیڈریشن نے جب جولائی 2019 میں کھلاڑیوں کی تازہ ترین درجہ بندی جاری کی تو تاریخ میں پہلی بار ٹاپ 150 کھلاڑیوں میں ایک پاکستانی کھلاڑی ماحُور شہزاد کا نام بھی شامل تھا۔ماحُور 2019 سے قبل چار برس تک پاکستان کی نمبر ایک بیڈمنٹن کھلاڑی ہیں جبکہ پچھلے تین سال سے وہ نیشنل چیمپیئن بھی ہیں۔پاکستان انٹرنیشنل بیڈمنٹن ٹورنامنٹ 2017 کے سنگلز میں سونے اور ڈبلز مقابلوں میں کانسی کا تمغہ جیتا جبکہ جنوری 2017 میں نیشنل بیڈمنٹن چیمپیئن شپ کے سنگلز مقابلوں کی فاتح رہیں اور خواتین کے ڈبلز مقابلوں میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔
ماحور جنوبی کوریا میں ہونے والی ایشیئن گیمز 2014 میں پاکستان کی نمائندگی بھی کر چکی ہیں جس کے بعد انھوں نے 2015 اور 2016 میں منعقد ہونے والے آل پاکستان رینکنگ بیڈمنٹن ٹورنامنٹ کے خواتین کے سنگلز مقابلے جیتے جبکہ نیشنل بیڈمنٹن چیمپیئن شپ 2015 میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔اُنھوں نے پاکستان انٹرنیشنل 2016 میں دوسری پوزیشن حاصل کی جبکہ 2017 میں منعقد ہونے والے ٹورنامنٹ کی فاتح رہیں۔
پاکستان کی تیراکی ٹیم کے رکن حسیب طارق ٹوکیو اولمپکس میں تیراکی کے سو میٹرز فری سٹائل ایونٹ میں پہلے فائنل مقابلے تک رسائی حاصل نہیں کر پائے۔ان کا انفرادی وقت 53 اعشاریہ آٹھ سیکنڈ رہا، اور وہ اپنے بہترین وقت میں بہتری لانے میں ناکام رہے۔ان مقابلوں میں وہ 70 تیراکوں میں سے 62ویں نمبر پر رہے۔پچیس سال کے حسیب طارق کراچی میں پیدا ہوئے تھے اور وہ اس وقت ملک کے باصلاحیت تیراکوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
19 برس کے گلفام جوزف سو میٹرز ایئر پسٹل ایونٹ میں حصہ لے رہے تھے اور انھوں نے عمدہ نشانہ بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو حیران کر دیا۔انھوں نے پہلے راؤنڈ میں مجموعی طور 578 پوائنٹ حاصل کیے لیکن قسمت ان پر مہربان نہیں تھی۔جہلم سے تعلق رکھنے والے گلفام کو فائنل مرحلے تک کوالیفائی کرنے کے لیے پہلی آٹھ پوزیشنز میں سے ایک حاصل کرنی تھی تاہم وہ نویں پوزیشن حاصل کر پائے۔ان کے اور ساتویں اور آٹھویں پوزیشن حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کے پوائنٹس 578 ہی تھے لیکن انھوں نے کم انر 10 نشانے لگائے تھے جس کے باعث وہ اگلے راؤنڈ تک رسائی حاصل نہ کر سکے۔
شاہ حسین شاہ نے جوڈو مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی، تاہم وہ پہلے ہی مقابلے میں مصر کے رمضان درویش سے ہار گئے اور تین ییلو کارڈ ملنے کے بعد ڈس کوالیفائی ہو گئے۔وہ پاکستان کے مشہور باکسر حسین شاہ کے بیٹے ہیں جنھوں نے 1988 کے سیول اولمپکس میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔ اس کے بعد سے پاکستان نے اولمپکس میں اب تک کوئی انفرادی میڈل حاصل نہیں کیا۔28 سال کے شاہ حسین شاہ اپنے دوسرے اولمپکس مقابلوں میں شرکت کر رہے تھے۔ اس سے قبل وہ ریو اولمپکس میں بھی پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔شاہ حسین شاہ نے 2014 میں گلاسگو میں ہونے والے کامن ویلتھ گیمز میں چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔ وہ دو مرتبہ ساؤتھ ایشین گیمز میں طلائی تمغے جیت چکے ہیں۔
دو سو میٹرز ایونٹ میں حصہ لینے والی 30 سال کی ایتھلیٹ نجمہ پروین کا یہ دوسرا اولمپکس تھا، تاہم وہ اس مرتبہ بھی ہیٹ مقابلوں سے آگے نہیں جا سکیں۔نجمہ کی کارکردی اس لیے خاصی مایوس کن رہی کیونکہ انھوں نے اپنے نیشنل ریکارڈ 23 اعشاریہ چھ نو سیکنڈ بھی موجود ہے تاہم اس ریس کو وہ 28 اعشاریہ ایک دو سیکنڈ میں مکمل کر پائیں۔نجمہ پروین کو اس ہیٹ مقابلے میں پہلی تین میں سے ایک پوزیشن حاصل کرنی تھی، تاہم وہ ہیٹ مقابلے میں حصہ لینے والی سات ایتلھیٹس میں سے ساتویں نمبر پر آئیں۔
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی پاکستان آرمی سے منسلک نجمہ پروین سنہ 2010 سے مختلف ایونٹس میں قومی سطح پر کامیابیاں سمیٹ رہی ہیں اور گذشتہ اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے باوجود اس مرتبہ ان کی ایونٹ میں وائلڈ کارڈ کے ذریعے شرکت خاصی ڈرامائی رہی تھی۔اطلاعات کے مطابق کچھ روز قبل ایتھلیٹکس فیڈریشن آف پاکستان نے اولمپکس میں ان کی شرکت واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا تاہم پاکستان اولمپکس فیڈریشن کی جانب سے دوبارہ شامل کروایا گیا تھا۔
پاکستان کی نمائندگی کرنے والے نشانہ بازوں نے ٹورنامنٹ میں توقع سے بہتر کارکردگی دکھائی لیکن وہ تمغے کے لیے مقابلے کے مرحلے تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔پیر کی صبح پاکستانی نشانہ باز غلام مصطفیٰ بشیر 25 میٹرز ریپڈ فائر پسٹل ایونٹ کے دوسرے مرحلے میں خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے جس کے بعد وہ بھی فائنل مرحلے تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔اتوار کے روز غلام مصطفی بشیر نے پہلے مرحلے میں چھٹی پوزیشن حاصل کی تھی جبکہ ان کے ساتھی خلیل اختر 16ویں نمبر پر رہے تھے تاہم دوسرے مرحلے کی کارکردگی کے بعد غلام مصطفیٰ بشیر 10ویں نمبر پر رہے جبکہ تمغہ حاصل کرنے کے مقابلے کے لیے انھیں پہلی چھ پوزیشنز میں سے ایک حاصل کرنی تھی۔ مقابلوں میں خلیل اختر کی مجموعی پوزیشن 15ویں رہی۔