ایاز امیر بھی سارا کے مرڈر میں برابر کے ذمہ دار کیوں ہیں

سینئر صحافی اور تجزیہ کار ایاز میر اپنی بہو سارہ کو بے دردی سے قتل کرنے والے بیٹے شاہ نواز کے حوالے سے ایک ندامت بھرا کالم لکھنے کے باوجود شدید تنقید کی زد میں ہیں اور ناقدین سوال کر رہے ہیں کہ کیا ان کے ندامت بھرے الفاظ قابل اعتبار ہیں بھی یا نہیں اور کیا وہ سارا کے قتل میں برابر کے حصے دار نہیں؟خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی معروف لکھاری ڈاکٹر طاہرہ کاظمی نے ایک جوابی تحریر میں ایاز امیر سے ڈھیروں سوالات کر ڈالے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شاہ نواز کی شادی کی ویڈیو سے پتہ چلتا ہے کہ ایاز امیر بیٹے کی شادی میں بڑھ چڑھ کر شریک ہیں اور والدہ ثمینہ والہانہ طور پہ ناچ رہی ہیں۔

ایاز امیر نے اپنے کالم میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بہت سی باتیں لکھی ہیں۔ لوگ باگ ان کی اس جرات رندانہ کو سراہ رہے ہیں کہ انہوں نے بیٹے کی حرکتوں پہ پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن یہ بات اتنی سادہ بھی نہیں۔ قتل پر افسوس اور اپنے بیٹے کے کرتوت لکھ کر وہ اپنی ذمہ داری سے علیحدہ نہیں ہو سکتے، وہ ذمہ داری جس کو نباہتے ہوئے بحیثیت باپ وہ سارہ سے ملے، نکاح کی تقریب میں دولہا کے ساتھ ساتھ رہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کہتی ہیں کہ ہم انکے لکھے ہوئے کالم کے متعلق ہی کچھ سوال پوچھنا چاہتے ہیں۔ ایاز امیر نے اپنے کالم میں بتایا ہے کہ پہلی بار جب میں سارا سے ملا، تو شاہنواز ساتھ بیٹھا تھا۔ میں نے پوچھا تم اس لڑکے کو جانتی نہیں تھیں؟ اس کی عادات سے واقف نہیں تھیں؟ سارہ نے کہا میں سب جانتی ہوں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ایسے جواب کے بعد انسان کیا کہے؟ طاہرہ کاظمی کہتی ہیں کہ رکیے ایاز امیر صاحب، آپ اتنے سادہ لوح ہیں تو نہیں کہ سارہ کے ایک جملے کے بعد خاموش ہو جائیں۔ کیا آپ نے سارہ سے کہا کہ بیٹی میں تم سے علیحدگی میں ملنا چاہتا ہوں۔ بیٹی میں تمہیں وہ ریڈ فلیگ دکھانا چاہتا ہوں جو تم اپنی معصومیت، بھول پن یا بے وقوفی میں دیکھ نہیں پا رہیں۔ طاہرہ کاظمی ایاز میر سے سوال کرتی ہیں کہ کیا آپ نے سارا کو شاہنواز کی پچھلی دو بیویوں کا حال سنایا جو آپ اب سنا رہے ہیں؟ کیا آپ نے سارہ کو یہ بتایا کہ شاہنواز منشیات کے نشے میں کس حد تک ڈوبا ہوا ہے؟ کیا آپ نے سارہ کو بتایا کہ شاہنواز انٹرنیٹ کی کالی دنیا کا باشندہ ہے؟ کیا آپ نے سارہ کو بتایا کہ اس کا ذریعہ آمدنی کچھ نہیں اور وہ آپ کے دیے ہوئے پیسوں پر پل رہا ہے؟

طاہرہ کاظمی ایاز میر کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اگر آپ نے سارہ کو پیسے بھیجنے سے منع کیا تھا تو اس کا مطلب ہے آپ بھانپ گئے تھے کہ شاہنواز سارہ کو کیسے استعمال کرے گا؟ کیا آپ نے شاہنواز کو اس پیار بھری تنبیہ کہ ”تم اس کے قابل نہیں“ کے علاوہ سختی سے منع کیا کہ وہ شادی کے قابل نہیں؟ کیا شاہنواز کو تیسری بار دولہا بنا دیکھ کر آپ مطمئن تھے؟ اور وہ بھی ایک ایسی لڑکی کے ساتھ جس کے ماں باپ بہن بھائی اس تقریب میں شامل نہیں؟

کیا آپ کا ماتھا نہیں ٹھنکا کہ شاہنواز کیا کرنے جا رہا ہے؟
پچھلی دو بہوؤں نے آپ کو جانے سے پہلے فون کر کے بتایا کہ وہ شاہنواز کے ساتھ نہیں رہ سکتیں، وجہ تو جانتے ہوں گے نا آپ؟ کیا آپ نے ان وجوہات کے متعلق شاہنواز کی ماں کے ساتھ بیٹھ کر کچھ لائحہ عمل طے کیا یا آپ کا فرض بس سٹیج پہ دولہا دلہن کے ساتھ بیٹھنے تک کا تھا؟ کیا آپ نے شاہنواز کو کسی مرکز بحالی منشیات میں داخل کروانے کی کوشش کی یا صرف اتنا ہی کہنا کافی تھا کہ خود کو بدلنے کی کوشش کرو؟ کیا کھوکھلی نصیحتوں سے بگڑے رئیس ٹھیک ہو جاتے ہیں؟

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی ایاز امیر سے سوال کرتی ہیں کہ کیا آپ کے شاہنواز کو پیسے بھیجنے یا شادیوں میں شرکت کرنے سے بہتر نہیں تھا کہ ایک باشعور شہری بن کر اس سے لاتعلقی اختیار کرتے؟
کیا آپ کو شاہنواز کی شادی کا انتظام اپنی زیر نگرانی چکوال کی ایک مسجد میں کروانا چاہیے تھا؟ یہ سب چونچلے تو انوکھے لاڈلوں کا نصیب ہوتے ہیں۔ کیا آپ اپنی سابقہ اہلیہ سے پوچھ کر بتائیں گے کہ جب شاہنواز اسے قتل کر رہا تھا، تب وہ کیا کر رہی تھیں؟ ثمینہ شاہ کی بے حسی اور سفاکی پہ ہم حیران ہیں جو بیٹے کی تیسری شادی کروانے میں تو پیش پیش تھیں ہی، خبروں کے مطابق قتل کے وقت بھی گھر میں موجود۔ نہ جانے دونوں کو لڑائی میں بیچ بچاؤ کروانے کیوں آگے نہیں بڑھیں؟ کیا آپ نے سارہ سے پوچھا کہ وہ اپنے والدین کو کیوں اس فیصلے میں شریک نہیں کر رہی؟ کیا آپ نے کہا کہ سارہ بیٹی ابھی شادی نہ کرو، کچھ اور وقت پاکستان میں گزارو پھر فیصلہ کرنا۔

اگر شاہنواز اپنی عیاشیوں کے لیے آپ پر انحصار کرتا تھا تو آپ شاہنواز کی سب حرکتوں سے آنکھیں بند کر کے اسے پیسے کیوں بھجواتے تھے؟ کیا اسلام آباد کی ایلیٹ کلاس میں وہ آپ کی مدد کے بغیر رہ سکتا تھا؟ آپ لگاتار شادیوں کے ہونے سے حیران ہوتے تھے۔ کیا کبھی آپ نے کوشش کی کہ ان سب لڑکیوں کو شادی سے پہلے شاہنواز کی اصل حقیقت بتاتے؟

طاہرہ کاظمی ایاز امیر سے سوال پوچھتی ہیں کہ کیا آپ نہیں جانتے تھے کہ لڑکیوں کو دھوکا دینا کس قدر آسان ہے؟ آپ کی ناک کے نیچے سب کچھ ہوتا رہا اور آپ صرف حیران ہوتے رہے۔ ہماری حیرت کی بات یہ ہے کہ آپ ابھی بھی ”اس کم بخت“ کو ”اپنا کم بخت“ کہہ کر پکار رہے ہیں۔ مزید حیرت کہ ایک معصوم لڑکی کے قاتل کے پیٹ کی بھوک آپکو حوالات میں بھی یاد رہی۔ کیا اپنے ضمیر کی عدالت میں کھڑا ہونے کے لیے یہ کہنا کافی ہے، ”کاش کچھ اور کہا ہوتا۔ ایسا ہوتا، ویسا ہوتا، یہ دن نہ دیکھنا پڑتا“ لکھنا کافی نہیں۔ واقعی ایسا نہ ہوتا جب آپ نے سارہ کو بیٹی کی نظر سے دیکھا ہوتا اور ”اپنے کم بخت ”کو داماد کے روپ میں تصور کیا ہوتا۔

آپ نے سوال پوچھا ہے کہ مجھ سے کیا غلطی ہوئی؟ تربیت کی؟ ٹوٹے ہوئے خاندان کی؟“ طاہرہ کاظمی کہتی ہیں نہیں جناب، تربیت یا ٹوٹا ہوا خاندان ذمہ دار نہیں۔ بہت لوگ ہوتے ہیں ایسے خاندانوں سے لیکن وہ قاتل اور خطرناک نشئی نہیں بنتے۔ آپ کی غلطی یہ ہے کہ آپ نے اس کو کسی مرحلے پر روکا نہیں؟ آپ کی غلطی یہ ہے کہ اپنی طاقت، اپنے سرمائے اور اپنے اثر و رسوخ میں اپنے بیٹے شاہنواز کو برابر کا حصہ دار بنایا۔ طاقت کا نشہ سب نشوں پہ بھاری ہوتا ہے جناب ایاز امیر صاحب! سارہ کے مرنے پہ چند لفظ لکھ کر اپنے لیے ہمدردیاں سمیٹنا بھی طاقت ہی کا استعمال ہے۔ ہمارا صحافی برادری سے ایک سوال ہے، اگر سارہ آپ میں سے کسی کی بیٹی ہوتی تو؟ طاہرہ کاظمی کہتی ہیں کہ کہ ایک ایسا شخص جو قلم کے سہارے لوگوں تک پہنچتا ہے وہ بیٹے کی محبت میں ایک معصوم عورت کو کچھ بھی نہیں بتاتا۔ کیا ایسے شخص کے ندامت بھرے الفاظ ہمارے لیے قابل اعتبار ہیں؟

Back to top button