بشریٰ بی بی نے جہانگیر ترین کو کپتان سے کیسے فارغ کرایا؟

وزیراعظم عمران خان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ کپتان اور جہانگیر ترین کے مابین دوریاں شوگر سکینڈل منظر عام پر آنے سے بہت پہلے پیدا ہوچکی تھیں جس کی بنیادی وجہ دونوں خاندانوں کی خواتین میں وہ اختلافات تھے جو کہ فرسٹ لیڈی بشری بی بی اور ان کی کرامات کے حوالے سے ترین خاندان کی خواتین کی جانب سے کی جانے والی مبینہ منفی گفتگو سے پیدا ہوئے.
عمران اور ترین دونوں ہی خان پٹھان ہیں۔ جہانگیر ترین پٹھان اور عمران نیازی پٹھان۔ گو دونوں نسلی طور پر پٹھان ضرور ہیں مگر ان کے خاندان صدیوں سے پنجاب میں آباد ہیں، سو دونوں ہی پنجابی پٹھان ہیں۔ دونوں کے والد سرکاری ملازم تھے سو دونوں کے بچپن تقریباً ایک ہی طرح گزرے۔ ترین کے والد اللہ نواز ترین پولیس میں ملازم تھے اور عمران کے والد سرکاری محکمے میں سول انجینئر تھے۔ ترین اور عمران دونوں کا پہلا کیرئیر سیاست نہیں تھا، ترین بینکر اور عمران کرکٹر تھے۔ دونوں نے بعد میں سیاست کے کیرئیرکا انتخاب کیا۔ دونوں نے عملی زندگی کا آغاز مڈل کلاس شہری کی حیثیت سے کیا، پھر دونوں دولت کما کر اشرافیہ میں شامل ہوگئے۔
جہانگیر ترین صنعت کاری اور زمینداری سے امیر ہوئے جبکہ عمران نے صرف کرکٹ اور شوکت خانم سے کمائی کی۔ جہانگیر خان ترین کے کزن ہمایوں اختر خان اور ان کے برادر نسبتی مخدوم احمد محمود پہلے سے سیاست میں متحرک تھے۔ مخدوم احمد محمود ہی جہانگیر ترین کو کھینچ کر سیاست میں لائے۔ اسی طرح عمران خان کے کزن اور برادر نسبتی حفیظ اللہ نیازی اسلامی جمعیت طلبہ میں سر گرم تھے جو عمران کو سیاست کے میدان میں کھینچ کر لانے والوں میں سر فہرست تھے۔
دونوں کے مشترکات کے بعد اب دونوں کے تضادات کی طرف چلتے ہیں۔ عمران خان نے کبھی بزنس نہیں کیا اور کرکٹ کے بعد شوکت خانم کے پلیٹ فارم سے فلاح انسانی کا فریضہ سنبھال لیا۔ یوں ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ مادی دنیا کی بجائے روحانی دنیا سے جڑتے چلے گئے لیکن اس دوران انہوں نے کبھی بھی دولت کی کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
دوسری طرف جہانگیر خان ترین مادی دنیا میں ایک سے دوسری منزل فتح کرتے چلے گئے، ایک شوگر مل کے بعد دوسری اور صنعت کے بعد زراعت میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑتے چلے گئے۔ سیاست میں ترین اور عمران اکھٹے ہوئے تو یہ ایک خوفناک اور خطرناک ‘جوڑا‘ بن گیا۔ عمران اخلاقیات کا جھنڈا اٹھائے قیادت کرتے رہے اور ترین عملیت پسندی پر چلتے ہوئے انتخابی گھوڑوں پر ہاتھ ڈالتے چلے گئے۔ عمران سٹیج پر کھڑے ہو کر سیاسی لتے لیتے رہے اور ترین رات کے اندھیروں میں سیاسی مخالفین کو توڑتے رہے۔ عمران ن لیگ کے خلاف عدالتوں میں مقدمات کرتے اور ترین ان مقدمات کے لیے فائلوں کا پیٹ بھرتے۔ غرض یہ کہ اس خطرناک جوڑے نے اپنے سیاسی مخالفین کو تاراج کر دیا۔
سچ تو یہ یے کہ تحریک انصاف کی سیاسی، عدالتی اور قانونی فتح کا راستہ ان دونوں کی مشترکہ ٹیم سے ہی ممکن ہوا تھا۔ چینی سکینڈل کی رپورٹ کے بعد ایک انٹرویو میں ترین نے کہا ہے کہ اب وہ اور عمران خان اتنے قریبی دوست نہیں رہے لیکن چند سال پہلے تک ان کی دوستی بہت گہری ہوتی تھی۔ اس قدر گہری کہ عمران خان اپنے نجی معاملات پر بھی ترین سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ ریحام خان نے اپنی کتاب اور انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ عمران مجھ سے طلاق لینے پر ترین سے مشورہ کر رہے تھے کہ میں نے اپنے کانوں سے سن لیا اور دروازہ کھول کر اندر چلی گئی اور انھیں بتا بھی دیا کہ میں آپ کی باتیں سن چکی ہوں۔ بعد ازاں ترین نے بھی اعتراف کیا کہ یہ بات سچ تھی۔
ایک زمانہ تھا جب کپتان کے نجی معاملات کے ساتھ ساتھ سیاسی حوالے سے بھی ترین کا پارٹی اور بنی گالہ پر مکمل ‘ہولڈ‘ تھا۔ تحریک انصاف میں کس نے اوپر جانا ہے اور کون فارغ ہو گا، اس کا دارومدار جہانگیر ترین کی حکمت عملی پر ہوتا تھا۔ الیکشن سے پہلے تک بنی گالہ عون چودھری، پنجاب علیم خان اور خیبر پختونخواہ پرویز خٹک کے مکمل قبضے میں تھے اور تینوں جہانگیر ترین کی مُٹھی میں تھے مگر پھر سب کچھ بدلنا شروع ہو گیا۔ صدیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار کے دوست اور ہوتے ہیں اور اپوزیشن کے دوست اور۔ بالکل ایسا ہی جہانگیر ترین کے ساتھ بھی ہوا۔
عدالت عظمیٰ نے انہیں سیاست سے نااہل اور عمران کو اہل قرار دیکر ایک عملیت پسندانہ سیاسی لین دین کا فیصلہ کیا جس پر تحریک انصاف سمیت کوئی بھی انگلی نہ اٹھا سکا اور یوں عمران خان کے نمبر 2 کا ڈھلوان کی طرف سفر شروع ہوا۔ اقتدار ملنے سے پہلےعمران کی بشریٰ مانیکا وٹو سے شادی ہو گئی اور اقتدار ملتے ہی عون چودھری کی بنی گالہ سے چھٹی ہو گئی۔ علیم خان اپنے چارٹر جہاز پر عمران اور ان کی بیگم کو عمرے کے لیے لے کر گئے مگر وہاں کچھ ایسا ہوا کہ علیم خان پن کی پیرنی کی نظروں سے گر گئے اور رفتہ رفتہ وہ بھی کپتان سے دور ہوتے چلے گئے۔ اسی طرح پرویز خٹک دوبارہ وزیر اعلیٰ جیبر پختونخواہ نہ بن سکے، لیکن وفاقی وزیر بن گئے مگر اب بھی وہ کپتان کے ناپسندیدہ لوگوں میں شامل ہیں۔
اسی طرح اقتدار کے چند ہی ماہ میں جہانگیر ترین کا قریبی حلقہ اثر عمران سے دور ہوتا گیا یا دور کر دیا گیا۔ ترین اور عمران میں فاصلے بڑھنے لگے مگر جب بھی کوئی بڑا معاملہ ہوتا کسی پارٹی سے ڈائیلاگ یا اتحاد کی بات ہوتی تو جہانگیر ترین کو بلایا جاتا۔ مگر پھر وقفے بڑھتے چلے گئے۔ اس دوران عمران کی نئی کچن کابینہ بن گئی پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ، فرسٹ لیڈی بشریٰ بی بی اور زلفی بخاری اس کابینہ کے اہم ترین رکن بن گئے۔ یوں ترین کا رہتا سہتا اثرو رسوخ اور بھی کم ہو گیا۔ اقتدار ملنے کے بعد وزیر اعظم کے آنکھ اور کان انٹیلی جنس بیورو ہوتا ہے جسے عرف عام میں آئی بی کہا جاتا ہے۔ آئی بی کا سربراہ تقریباً ہر روز وزیر اعظم سے ملتا ہے یا پھر وزیر اعظم کے معتمد پرنسپل سیکرٹری کو روزانہ کی ملکی اور سیاسی صورتحال پر بریفنگ دیتا ہے۔
اعظم خان نے اپنے دوست اور پولیس کے ایک قابل افسر محمد سلمان خان کو آئی بی کا سربراہ لگوایا۔ ترین کے دوستوں کا الزام ہے کہ عمران اور ترین میں غلط فہمیوں کا آغاز آئی بی کی ایک رپورٹ سے ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ جہانگیر ترین، سپیکر اسد قیصر، پرویز خٹک اور کچھ دوسرے وزرا نے ایک غیر رسمی اجلاس میں پارٹی لیڈر اور پالیسیوں کے خلاف گفتگو کی۔ لیکن اصل میں عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان فاصلے اس وقت بڑھے جب دونوں خاندانوں کی خواتین میں اختلافات پیدا ہو گئے۔ اس کی ایک وجہ فرسٹ لیڈی کی روحانی کرامات کے حوالے سے ترین خاندان کی خواتین کی غیر محتاط گفتگو بھی بتائی جاتی ہے۔ بعد ازاں خان کے قریبی حلقے میں اسد عمر بھی شامل ہوگئے جو ترین کے خلاف پہلے سے ہیں۔ اس سے ترین مخالف حلقہ اور طاقتور ہوگیا۔ دوسری طرف ترین نے بھی معاملات کو درست کرنے کے حوالے سے کوئی سنجیدہ اور بامقصد منصوبہ بندی نہ کی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان، ترین کی زراعت، آٹا اور چینی کے حوالے سے کارکردگی پر بھی ناراض ہیں جبکہ ترین کے ساتھی کہتے ہیں کہ عمران خان انھیں کچھ کرنے ہی نہیں دیتے تو ان کی ذمہ داری کیسی؟ لیکن جہانگیر ترین اب یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اپوزیشن کے دوست اور ہوتے ہیں اور اقتدار کے دوست اور۔
ویسے بھی عمران کے ایک بہت قریبی دوست نے کہا تھا کہ کپتان سے ذیادہ قربت اچھی اور نہ ہی زیادہ دوری اچھی۔ زیادہ قریب ہوئے تو وہ بور ہوجائے گا اور زیادہ دور ہوئے تو وہ بھلا دے گا۔ یقیناً ترین اس راز کو نہ سمجھ سکے۔