خط لکھنے والے پاکستانی سفیر نے اجلاس میں کیا بتایا؟
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس نے بالآخر سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ایک مبینہ خط پر مبنی امریکی سازش اور امپورٹڈ حکومت کا بیانیہ رد کر دیا ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس پاکستانی سفیر اسد مجید خان نے بھی شرکت کی جس نے خط لکھا تھا اور جسے عمران خان ایک امریکی خط قرار دیتے رہے تھے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ریاست پاکستان کے خلاف کسی قسم کی کوئی سازش نہیں ہوئی، میٹنگ میں اس مراسلے کا جائزہ لیا گیا جو امریکہ میں تعینات سابق سفیر اسد مجید خان نے لکھا تھا۔ اسد مجید خان نے آرمی چیف اور وزیر اعظم کے علاوہ میٹنگ کے دیگر شرکا کو بھی اپنے لکھے ہوئے خط پر بریفنگ دی۔ اس کے علاوہ پاکستانی سکیورٹی ایجنسیز نے بھی اس معاملے پر اپنی تحقیقات کے نتائج پیش کیے۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ کے مطابق اجلاس کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی کے خلاف کسی قسم کی امریکی سازش نہیں ہوئی۔ میٹنگ کی صدارت وزیر اعظم شہباز شریف نے کی، کمیٹی میٹنگ میں وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، احسن اقبال بھی شریک ہوئے۔ کمیٹی میٹنگ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، تمام سروسز چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم بھی شریک ہوئے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ حساس اداروں کی تحقیقات کے بعد متفقہ نتیجہ یہ نکلا کے بیرونی سازش کا بیانیہ غلط ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں۔
یاد رہے کہ جس مبینہ دھمکی آمیز خط کا سکینڈل بنا کر عمران خان اپنی ڈوبتی ہوئی سیاست بچانے کی کوشش میں مصروف ہیں وہ دراصل 7 مارچ 2022 کو امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر اسد مجید خان کی رہائش گاہ پر انکے لیے ہونے والے الوداعی ظہرانے کی کہانی پر مبنی ہے۔
اس روز مہمانوں سے ہونے والی گفتگو کو اسد مجید خان نے ایک خط کی صورت میں بیان کیا تھا لہٰذا یہ کسی امریکی کا نہیں بلکہ ایک پاکستانی کا لکھا ہوا خط ہے۔ ذرائع کے مطابق اسد مجید خان نے سلامتی کمیٹی کے شرکاء کو بتایا کہ انہوں نے خط اپنے گھر ہونے والے اپنے الوداعی ظہرانے کے حوالے سے تحریر کیا تھا۔ لیکن اس ظہرانے میں امریکی حکام کی جانب سے کوئی دھمکی نہیں دی گئی تھی۔ ظہرانے میں شرکت کرنے والے امریکی حکام میں امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو اور ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری لیسلی سی ویگوری شامل تھے۔ پاکستانی وفد میں ڈپٹی چیف آف مشن سید نوید بخاری اور ایک دفاعی اتاشی بھی شامل تھے جن کی گواہی کی بنیاد پر پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ اس روز امریکہ کی جانب سے پاکستان کو کوئی دھمکی نہیں دی گئی تھی۔ 7 مارچ کی دوپہر واشنگٹن میں اسد مجید خان کے گھر کھانے پر ہونے والی ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی تھی جب یوکرین پر روس کے حملے کو دو ہفتے سے بھی کم وقت گزرا تھا، اس لیے یوکرین پر حملے کی گفتگو اس دوران غالب رہی تھی۔
ذرائع کے مطابق اسد مجید خان نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ اس روز کی گفتگو کو دھمکی آمیز قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ یہ ایک غیر رسمی لنچ پر ہونے والی فرینک گفتگو تھی جس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی۔ یاد رہے کہ اسد مجید خان کو جرمنی میں پاکستان کا سفیر تعینات کر دیا گیا ہے۔