سعودی عرب میں مصر کے فراعنہ کے آثار دریافت ہو گئے

سعودی عرب کی دھرتی انتہائی قدیم ترین دھرتی ہے تاہم اس دھرتی کی قدامت اور یہاں کے تہذیبی آثار دُنیا کی آنکھوں سے اوجھل رہے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران قدیم دور کی یادگاریں اور آثار قدیمہ کی تلاش میں بڑی اہم دریافتیں سامنے آئی ہیں۔ اب ایک اور انکشاف سامنے آیا ہے کہ مملکت میں تین ہزار سال پرانے مصر کے فرعون بادشاہوں کی یادگاریں بھی موجود ہیں۔العربیہ نیوز کے مطابق ان یادگاروں کی تلاش کا عمل رواں سال نومبر میں شروع کیا جا رہا ہے۔ فراعنہ کے آثار قدیمہ کی دریافت میں ‘رمسیس سوم’ یعنی تیسرے فرعونی بادشاہ کے مقام کا پتا چلانے کی کوشش کے ساتھ مملکت اور مصر کے درمیان تین ہزار سال قبل تجارتی تعلقات کا بھی پتا چلانے میں مدد ملے گی۔
سعودی عرب میں فراعنہ کے آثار قدیمہ کی تلاش کے مشن میں مصر اور سعودی عرب کی ٹیمیں مشترکہ طور پر کام کریں گی۔گذشتہ روز سعودی عرب کی وزارت ثقافت کے ادارے آثار قدیمہ کے چیئرمین جاسر الحربش اور مصر کے سابق آثارقدیمہ ڈاکٹر زاھی حواس نے ملاقات کی۔ اس موقعے پر فیصلہ کیا گیا کہ سعودی عرب میں فراعنہ کے آثار کی تلاش کی نگرانی خود سعودی عرب کرے گا۔ سعودی عرب میں آثار قدیمہ کی تلاش کے ساتھ مملکت میں آثارقدیمہ کے حوالے سے تیار کی جانے والی دستاویزی فلموں کی عکس بندی بھی کی جائے گی۔
ایک پریس بیان میں زاھی حواس نے کہا کہ سعودی عرب کی سرزمین پر رمسیس سوم کی باقیات کے آثار فطری امر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تیسرے فرعونی بادشاہ نے پڑوسی ملکوں سے پیتل کے حصول کے لییکاروباری وفود بھیجے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آج یہ علاقے سعودی عرب کا حصہ ہیں۔ اس لیے ماہرین کو توقع ہے کہ جزیرة العرب میں فراعنہ کے آثار قدیمہ سعودی عرب میں ہوسکتے ہیں۔کھدائیوں کے دوران مصر اور سعودی عرب میں پرانے دور میں استعمال ہونے والے تجارتی راستوں کا بھی پتا چلا ہے جو مملکت میں فرعونی سلسلے کے بادشاہوں کی جانب سے تجارتی قافلوں کو بھیجنے کی قیاس آرائیوں کو تقویت دیتے ہیں۔

Back to top button