50 برس کی پاک امریکہ دوستی 6 ماہ میں خراب کیوں ہو گئی؟


59 برس تک ایک دوسرے کے اتحادی رہنے والے پاکستان اور امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے جانے اور جو بائیڈن کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے چھ ماہ کے دوران ہی ایک دوسرے سے اتنے دور جا چکے ہیں کہ اب دونوں ممالک مخالف سمت میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان دوریوں کی بنیادی وجہ افغانستان اور وہاں تیزی سے اپنا قبضہ جمانے والے افغان طالبان ہیں۔ امریکا اب بھی یہی سمجھتا ہے کہ پاکستان کا افغان طالبان پر گہرا اثر و رسوخ ہے اور وہ انہیں جنگ بندی پر آمادہ کرے۔
اپنے اسی موقف دہراتے ہوئے 30 جولائی کو دورہ بھارت کے دوران امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ پاکستان اب بھی افغان طالبان پر مؤثر اثر رسوخ رکھتا ہے اور امریکہ کو امید ہے کہ وہ طالبان کو جنگ بندی اور مذاکرات پر قائل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا تاکہ جنگجو طاقت کے ذریعے اقتدار پر قابض نہ ہوں۔ امریکی وزیر خارجہ کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف اور انٹر سروسز انٹیلی جنس کی ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید امریکہ کے سرکاری دورے پر ہیں۔ تاہم دوسری جانب پاکستان کا یہ مؤقف ہے کہ جن افغان طالبان کو امریکہ 20 برس جنگ لڑنے کے باوجود شکست نہ دے پایا وہ اب پاکستان کی بات کیوں سنیں گے خصوصا جب وہ امریکی فوجوں کے انخلا کو اپنی جیت سمجھتے ہیں اور اسی لیے تیزی سے افغانستان پر قابض ہورہے ہیں
وزیر اعظم مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بعض دیگر حکومتی اہلکاروں کے ساتھ اس وقت امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں افغانستان کے معاملہ پر پاکستان کا سرکاری مؤقف واضح کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ معیدیوسف نے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان سے بھی ملاقات کی ہے جو گزشتہ چند ماہ کے دوران ان دونوں عہدیداروں کے درمیان ہونے والی دوسری ملاقات ہے۔ معید یوسف نے امریکی ہم منصب جیک سلیوان سے ملاقات کے بعد ایک ٹوئٹ میں کہا کہ واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والی ملاقات دراصل حال ہی میں جنیوا میں ہونے والی ملاقات کا تسلسل ہے۔اس دوران دوطرفہ تعلقات سمیت خطے اور عالمی معاملات سے متعلق باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت ہوئی۔ جیک سلیوان سے ملاقات میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان باہمی تعاون کو برقرار رکھنے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے‘۔ تاہم امریکی صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان نے اس ملاقات کے بارے میں ٹوئٹ پر جو بیان جاری کیا ہے اس میں افغان تنازعہ کا خاص طور سے ذکر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے افغانستان میں جاری تشدد میں فوری کمی کی ضرورت اور تنازع کے سیاسی حل کے لیے مذاکرات پر تبادلہ خیال کیا ۔ پاکستانی ہم منصب سے ملاقات میں خطے کے روابط اور سیکیورٹی امور پر بات چیت ہوئی ہے‘۔
امریکہ میں ہونے والی ملاقاتوں اور امریکی وزیر خارجہ کے انٹرویو کی روشنی میں یہ سمجھنا دشوار نہیں ہے کہ امریکہ افغان طالبان کے حوالے سے پاکستان سے تعاون چاہتا ہے اور اسے اس معاملہ میں ذمہ دار بھی سمجھتا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان نے افغان میڈیا کے نمائیندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایک بار پھر دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ’پاکستان نہ تو طالبان کے اقدمات کا ذمہ دار ہے اور نہ ہی ان کی حکومت طالبان کی ترجمان ہے۔ اس صورت حال سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ افغانستان میں کردار کے حوالے سے اختلاف رائے کے باوجود پاکستان بدستور افغانستان ہی کو اپنی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ سمجھتا ہے اور اسے خوب اندازہ ہے کہ افغانستان میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات پاکستان کے مستقبل پر اثر انداز ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی غلطیوں کی نشاندہی کے باوجود امریکہ کے ساتھ مواصلت و مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کو یہ بھی احساس ہے کہ اس وقت امریکہ اور اس کے حلیف ممالک میں پاکستان کو افغانستان میں اپنے کردار ہی کی وجہ سے سفارتی اہمیت و وقعت حاصل ہے۔ اس کے اظہار میں بخل سے کام بھی نہیں لیا جاتا۔ وزیر اعظم ، وزیر خارجہ اورقومی سلامتی کے مشیر سب ہی یہ کریڈٹ لیتے ہیں کہ طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات اور امن معاہدہ پر پاکستان نے آمادہ کیا تھا۔ پاکستان کی سہولت کاری کے بغیر یہ کام ممکن نہیں تھا۔ امریکہ بھی اس کردار کو اہم سمجھتا ہے اور مختلف مواقع پر اس کااظہار بھی کیا جاچکا ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ پاکستان اب اسی کردار سے گریز کا راستہ تلاش کررہا ہے جس کی بنیاد پر وہ خود کو دنیا کے سامنے سرخرو بھی کرتا ہے۔
یہ سوچنا اہم ہے کہ اس پس منظر میں وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ افغانستان کے عملی حل کے حوالے سے فاصلے پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ امریکہ کی پوزیشن اس حد تک تو واضح ہے کہ وہ افغانستان میں کوئی ایسا سیاسی انتظام چاہتا ہے جس میں بھلے طالبان کو اقتدار میں مناسب حصہ حاصل ہو لیکن کسی حد تک انسانی حقوق اور خواتین کے سماجی و سیاسی کردار کے بارے میں ضمانت فراہم کی جائے۔ اس کے علاوہ وہ کسی صورت یہ برداشت نہیں کرے گا کہ افغان سرزمین کو ایک بار پھر ایسے گروہوں کی آماجگاہ بنایا دیا جائے جہاں سے وہ امریکہ یا اس کے دوست ملکوں پر حملوں میں ملوث ہوں۔ امریکی وزیر خارجہ کے دورہ بھارت کے دوران اسی تشویش پر بات چیت کی گئی ہے۔ حالانکہ بھارت نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران افغانستان میں پاکستان دشمن عناصر کو آلہ کار بنا کر پاکستان میں انتشار و بدامنی میں کردار ادا کیا ہے۔ یہ بھی واضح ہورہا ہے کہ طالبان اگرچہ سیاسی اقتدار ملنے کے بعد القاعدہ اور مشرقی ترکستان اسلامی تحریک جیسے گروہوں سے قطع تعلق کرنے کا اشارہ دے رہے ہیں لیکن ممکنہ عسکری تصادم کے اندیشے کی بنا پر وہ فی الوقت ان روابط کو مکمل طور سے ختم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ یہی رویہ واشنگٹن کی تشویش میں اضافہ کرتا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان کی افغان پالیسی کو ایک طرف عالمی سفارتی قبولیت کے لئے استعمال کیا جارہا ہے لیکن دوسری طرف اس کی خارجہ و سیکورٹی حکمت عملی افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کے گرد گھومتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمنٹ میں خطاب کے علاوہ متعدد انٹرویوز میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ بھارت سے تحفظ کے لئے 90 کی دہائی میں ضرور ’تزویراتی گہرائی‘ کی پالیسی اختیار کی گئی تھی لیکن اب اسے ترک کیا جاچکا ہے۔ تزویراتی گہرائی یا سٹریٹیجک ڈیپتھ نامی اصطلاح کی کبھی تشریح نہیں کی گئی کیوں کہ اسے رد کرنے کا اعلان کرنے سے پہلے پاکستان نے کبھی یہ قبول نہیں کیا کہ اس قسم کی کسی پالیسی پر عمل درآمد ہورہا ہے۔ البتہ اس سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی یہ خواہش رہی ہےکہ افغانستان میں کوئی ایسی حکومت قائم ہو جو اسلام آباد نواز ہو اور بھارتی اثر و رسوخ کو افغان سرزمین اور حکومتی پالیسیوں سے زائل کرے۔ طالبان پاکستان کا یہ مقصد پورا کرنے کا باعث بنے تھے۔
اس معاملے پر سینئر صحافی نجم سیٹھی کہتے ہیں افغانستان میں امریکہ اور پاکستان کے مفادات مشترک ہیں لیکن بعض معاملات میں ان مفادات کی نوعیت دوسری ہے۔ نجم سیٹھی نے کہا کہ امریکہ کی خواہش تھی کہ اشرف غنی کی حکومت برقرار رہے اور اسے مضبوط کیا جائے جب کہ طالبان سے متعلق واشنگٹن کی کوشش تھی کہ انہیں اقتدار سے دور رکھا جائے۔ان کے بقول اب زمینی حقائق تبدیل ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی یہ کوشش ہے کہ کوئی ایک فریق بھی افغانستان میں مکمل پاور میں نہ ہو کیوں کہ تاریخی اعتبار سے افغانستان کو کوئی ایک جماعت مکمل طور پر کنٹرول نہیں کر سکتی۔ سیٹھی نے بتایا کہ اگر افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوتا ہے تو اس کے پاکستان پر براہِ راست اثرات پڑنے کا خدشہ ہے۔ ان کے مطابق امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کا طالبان پر ہر قسم کا اثر و رسوخ ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان کے بقول طالبان موجودہ حالات میں افغانستان میں بہت زیادہ مضبوط ہو چکے ہیں جس کے بعد وہ ایک حد تک تو پاکستان کی بات سن سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے مفادات کو بھی دیکھ رہے ہیں۔

Back to top button