موجودہ اور نامزد چیف جسٹس ایک بار پھر آمنے سامنے

پاکستان کے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے قائم کردہ نو رکنی لارجر بنچ کو غیر قانونی قرار دیتے ھوۓ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرنے سے انکار کردیا. جسٹس فائز عیسی اور ان کے برادر جج سردار طا رق مسعود باقاعدہ سماعت شروع ہوتے ہی بنچ سے آٹھ گئے جس کے بعد فوجی عدالتوں کے خلاف قائم کردہ نو رکنی بنچ ٹوٹ گیا قاضی فائز عیسی نے کہا کہ جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ نہ ہو میں اس عدالت کو نہیں مانتا۔ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ککی جانب سے 9 رکنی لارجر بینچ بدھ کی رات کو تشکیل دیا گیا تھا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ، جسٹس طارق مسعود اور جسٹس منصور شاہ، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک درخواستوں کی سماعت کا آغاز کیا تاہم جسٹس فائز عیسیٰ نے بینچ میں بیٹھنے سے معذرت کر لی اور ریمارکس دئیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس کے فیصلے تک کسی بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا۔ سٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ آپ روسٹرم پر آئیں۔ کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ عدالتوں کو سماعت کا دائرہ اختیار آئین کی شق 175 دیتا ہے۔ صرف اور صرف آئین عدالت کو دائرہ سماعت کا اختیار دیتا ہے۔ ہر جج نے حلف اٹھایا ہے کہ وہ آئین اور قانون کے تحت سماعت کرے گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حلف کے مطابق میں آئین،قانون کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ قوانین میں ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر بھی ہے۔ اس قانون کے مطابق بنچ کی تشکیل ایک میٹنگ سے ہونی ہے۔کل شام مجھےاپنا نام کازلسٹ میں دیکھ کر تعجب ہوا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو قانون بننے سے پہلے آٹھ رکنی بنچ نے روک دیا تھا۔اس قانون کا کیوں کہ فیصلہ نہیں ہوا اس پر رائے نہیں دوں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے ایک ازخود نوٹس میرے بینچ میں سماعت کے لیے مقرر ہوا۔میں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل184/3 میں رولزبنائے جائیں، اس کے بعد تعجب دکھ اور صدمہ ہوا کہ 31 مارچ کو رجسٹرار سپریم کورٹ نے سرکلر جاری کیا 31 مارچ کے سرکلرمیں کہا کہ سپریم کورٹ کے 15 مارچ کے حکم کو نظر انداز کریں۔ یہ وقعت تھی سپریم کورٹ کے فیصلےکی؟ پھرسپریم کورٹ نے 6 ممبر بینچ بنا کر سرکلر کی توثیق کی اور میرا فیصلہ واپس لیا۔ میرے دوست یقیناً مجھ سے زیادہ قابل ہیں لیکن میں اپنے ایمان پر فیصلہ کروں گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس 6 ممبر بینچ میں اگر نظرثانی تھی تو مرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا؟ میں نے 6 ممبر بینچ پر نوٹ تحریرکیا جسے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنےکے بعد ہٹادیا گیا، چیف جسٹس نے 16 مئی کو پوچھا کہ کیا میں چیمبر ورک کرنا چاہتا ہوں یا نہیں؟ بتاتا ہوں کہ میں نے چیمبر ورک کو ترجیح کیوں دی۔ ایک قانون بنادیا گیا بینچز کی تشکیل سے متعلق، کسی پر انگلی نہیں اٹھا رہا لیکن میرے پاس آپشن تھا کہ حلف کی پاسداری کروں یا عدالتی حکم پربینچ میں بیٹھوں۔میری دانست میں قانون کو مسترد کیا جاسکتا ہے معطل نہیں کیا جاسکتا۔ مجھ سے جب چیمبر ورک کے بارے میں دریافت کیا گیا تو میں نے 5 صفحات پر مشتمل نوٹ لکھا۔
نامزد چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چہ مگوئیوں سے بچنے کے لیے میں اس بات کا قائل ہوں کہ ساری بات کھلی عدالت میں ہونی چاہیے۔ اب تو نوٹ بھی ویب سائٹ سے ہٹائے جاتے ہیں اس لیے اپنا جواب یہیں پڑھ رہا ہوں۔میں نے چیف جسٹس کو لکھا نوٹ اپنے تمام کولیگز کو بھی بھیجا۔میں نے نوٹ میں کہا کہ میرے ساتھیوں نے قانون معطل کرکے مجھے عجیب کشمکش میں ڈال دیا ہے۔ وفاقی حکومت نے میری سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا۔ انکوائری کمیشن کو 19 مئی کو 5 رکنی بینچ نے کام کرنے سے روک دیا؟ میں نے انکوائری کمیشن میں نوٹس ہونے پر جواب بھی جمع کرایا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ مجھے جو درخواست رات گئے موصول ہوئی اس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی بھی درخواست تھی۔ آج کازلسٹ میں آخر میں آنے والی درخواست سب سے پہلے مقرر کردی گئی۔ میں اس بینچ کو “بینچ” تصور نہیں کرتا۔ میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا لیکن بینچ سے اٹھ رہا ہوں۔ پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ کیا جائے۔ میرا موقف یہ ہے کہ جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجربل کیس کا کوئی فیصلہ نہیں ہو جاتا تب تک میں کسی بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ کیا جائے۔ میں اور جسٹس سردار طارق مسعود اس کشمکش میں تھے کہ کیس سننے سے معذرت کریں یا نہیں۔سب سے معذرت چاہتا ہوں۔ میں بینچ سے اٹھ رہا ہوں۔ جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ نہ ہو میں اس عدالت کو نہیں مانتا۔ واضح رہے کہ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف 4 درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کی گئی تھیں۔سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، سینیئر وکیل اعتزاز احسن، کرامت علی اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں، درخواست گزاروں نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔ اعتزاز احسن کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا نے درخواست دائر کی جس میں شہریوں کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے اور وفاقی حکومت کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کور کمانڈر فیصلہ پر ربر اسٹمپ کا کردار ادا کیا۔ سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 اور 59 آئین سے متصادم ہیں۔ آرمی ایکٹ قانون کے سیکشن 2 اور 59 کو کالعدم قرار دیا جائے۔ یاد رہے کہ قاضی فائز ایسی نے جس بل کا حوالہ دیتے ہوۓ نو رکنی لارجر بنچ میں بیٹھنے سے انکار کیا ہے اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم بنچ نے حکم امتناع جاری کر کے عمل درآمد روک رکھا ہے . بل کے مطابق پاکستان کی پارلیمان نے اپریل میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی منظوری دی تھی۔
بل کے مطابق سینئر ترین تین ججوں کی کمیٹی از خود نوٹس لینے کا فیصلہ کرے گی۔ یہ کمیٹی چیف جسٹس آف پاکستان سمیت سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ہو گی۔
ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی آئینی تشریح کے لیے کمیٹی پانچ رُکنی بینچ تشکیل دے گی۔
آرٹیکل 184 کے تحت کوئی بھی معاملہ پہلے ججوں کی کمیٹی کے سامنے آئے گا۔
بل کے تحت سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے خلاف اپیل کا حق بھی ہوگا۔ کسی بھی سوموٹو نوٹس پر 30 دن میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔
بل میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی سوموٹو کے خلاف اپیل کو دوہفتوں میں سنا جائے گا۔
ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ اس ایکٹ کا اطلاق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں پر ہوگا۔
عدالتی اصلاحات کے ترمیمی بل کے ذریعے چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیار کو بھی محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں کے بعد اس پر عمل درآمد روک دیا تھا۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں زیرِِ سماعت ہے
پیرس میں شہباز شریف کی اہم عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں
۔