پاکستان سے جاری ورک ویزا میں 42فیصد اضافہ ہوا ہے

مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے کہا ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے جو خوش آئند ہے اور پاکستان کی جانب سے جاری کیے جانے والے ورک ویزا میں 42 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
بدھ کے روز پاک چین دو طرفہ تعلقات کے 70سال مکمل ہونے کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مشیر تجارت نے کہا کہ چین کے لیے ہماری برآمدات 2.3ارب ڈالر تک پہنچ گئی اور چین کی رینکنگ میں بہتری ہوئی ہے جس پر ہمیں بہت خوشی ہے لیکن میں ساتھ ساتھ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ 2.3ارب کافی نہیں ہے اور ہمارے جس نوعیت کے تعلقات ہیں اور چین کی معیشت کے حجم کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اس میں مزید اضافے کی امید ہے۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کی بات کی جائے تو ہم دوسرے مرحلے کی جانب بڑھ رہے ہیں اور ہم زراعت اور صنعت پر توجہ دے رہے ہیں لہٰذا یہ دو اہم شعبے ہیں اور مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ چین نے ہماری زراعت، تحقیق اور نئی ٹیکنالوجی لانے میں مدد کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بات سب کے علم میں نہیں ہے کہ چین نے چند سال قبل چاول کے لیے ایک نئے پودے کو متعارف کرایا تھا اور جب اس کو سندھ میں اگایا گیا تو پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہوا، اس کے نتیجے میں ہماری غیرباسمتی چاول کی پیداوار میں بہت اضافہ ہوا اور ان کی برآمدات میں بھی اضافہ ہوا اور یہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
عبدالرزاق داؤد نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے جاری کیے جانے والے ورک ویزا میں 42 فیصد تک اضافہ ہوا ہے ، یہ بہت دلچسپ اعدادوشمار ہیں، مزید لوگ پاکستان میں کام کرنے کے لیے آ رہے ہیں اور 42 فیصد کا اضافہ خوش آئند ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج سے سات سے آٹھ سال قبل پاکستان اور چین کے درمیان چند بڑی کمپنیاں ہی تجارتی امور کا حصہ تھیں لیکن درمیانے درجے کی کمپنیوں کی بڑی تعداد باہمی تجارت کر رہی ہیں اور اس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، درمیانے درجے کے 40 سرمایہ کار پاکستان آنے والے نہیں ہیں بلکہ آ چکے ہیں جو مختلف شعبوں میں کام کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم چین کا ایک اور دورہ کرنے کی تیاری کررہے ہیں اور جیسے ہی کورونا کی پابندیوں میں نرمی کی جاتی ہے تو ہم اپنے دورے کو حتمی شکل دیں گے۔
اس موقع پر انہوں نے موجودہ حکومت کی ایکسپورٹ پالیسی پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری برآمداتی پالیسی کی ایک بڑی کمزوری یہ تھی کہ ہماری مصنوعات کے ساتھ ساتھ ہم جغرافیاتئی اعتبار سے بھی متنوع نہیں تھے۔
مشیر تجارت نے کہا کہ اگر مصنوعات کی بات کی جائے تو ہمارے سب سے اہم شعبے ٹیکسٹائل میں بھی ہم جو چیزیں بنا رہے تھے ان کی رینج بہت کم تھی، اب ہم اس شعبے پر کام کرتے ہوئے چین سے ماہر افراد کو بلا رہے ہیں اور مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ مسلسل کوششوں کے بعد پاکستان سوت اور دستکاری کے برآمد کنندہ سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہو گیا ہے اور گارمینٹس سمیت متعدد مصنوعات کی برآمدات میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
عبدالرزاق نے کہا کہ جغرافیائی اعتبار سے دیکھا جائے تو ہم خطے کے دیگر ممالک سے بھی وسیع تر تعلقات کے خواہشمند ہیں اور آئندہ چند دن میں وزیر اعظم ازبکستان جانے والے ہیں جہاں ہم اس سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں جو ہم نے سی پیک کے سلسلے میں کی ہے کیونکہ سی پیک کے ذریعے بذریعہ سڑک ہماری ازبکستان تک راہداری بن جائے گی جس سے ہمیں وسط ایشیا سے اشیا پاکستان لانے میں مدد ملے گی ۔
انہوں نے کہا کہ ازبکستان وسط ایشیا کا واحد ملک ہے جو بقیہ تمام ممالک سے منسلک ہے اور یہ ہمارے لیے بہت بہترین موقع ہے، ازبکستان نے پاکستان سے گوادر پر ‘آف ڈاک’ سہولت دینے کی درخواست کی ہے تاکہ وہ اپنی اشیا یہاں بھیج سکیں اور یہاں سے انہیں افریقہ، مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں میں بھیج سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ چین یہاں سرمایہ کرے لیکن اب ہم چین سے یہ درکواست کررہے ہیں کہ وہ برآمدات کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری کریں، وہ اپنی سہولیات یہاں لے کر آئیں گے تو ہمیں بہت خوشی ہو گی ۔
تقریب سے چینی ریاستی کونسلر اور وزیر خارجہ وانگ اِی نے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چین اور پاکستان کے درمیان اسٹریٹیجک روابط میں اضافہ ضروری ہے جبکہ چین باہمی تعلقات کے حوالے سے بروقت اسٹریٹجک راہنمائی کی فراہمی کے لیے پاکستان سے ہر نوعیت کے اعلیٰ سطحی روابط اور معلومات کے تبادلے کو برقرار رکھے گا۔
چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے مسئلے کا مستقبل چین اور پاکستان دونوں کے لیے ایک اہم چیلنج ہے جبکہ چین پاکستان کے ساتھ مل کر مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے اور بالآخر قومی مفاہمت کے حصول اور پائیدار امن کے لیے افغانستان میں مختلف دھڑوں کی حمایت کرتا رہے گا۔