پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب وزیراعلیٰ کے بغیر یتیم
قیام پاکستان کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ایک شدید سیاسی اور آئینی بحران کا شکار ہو کر تین ہفتوں سے بغیر کسی وزیر اعلیٰ کے چل رہا ہے۔ یہ بھی پنجاب کی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ نیا وزیر اعلیٰ منتخب ہو جانے کے باوجود گورنر اسے حلف دلوانے سے انکاری ہے اور معاملہ عدالت میں جا کر لٹک چکا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق صوبہ پنجاب کا آئینی بحران جلد ختم ہونے کی توقع نہیں بلکہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا معاملہ بھی عدالتوں تک جانے کا امکان ہے۔ ایک طرف گورنر کی جانب سے نئے وزیر اعلیٰ سے حلف نہ لینے کا معاملہ عدالت تک جا پہنچا ہے اور دوسری جانب سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے استعفے کی قبولیت پر بھی قانونی سوالات کھڑے کیےجا رہے ہیں۔ اسی طرح اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف مسلم لیگ ن اور ڈپٹی سپیکر دوست مزاری کے خلاف پی ٹی آئی نے تحریک عدم اعتماد جمع کرارکھی ہے جن پر فیصلہ ہونا باقی ہے۔
اسمبلی کے حالیہ اجلاس پر بھی تنازع ختم نہیں ہو پایا ہے جو کہ نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے بلایا گیا تھا۔
16اپریل کا اجلاس ڈپٹی سپیکر نےغیر معینہ مدت کے لیے موخر کیا تو سپیکر نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسی 40 ویں اجلاس کا سیشن دوبارہ 28 اپریل کو طلب کر لیا ہے۔ سیکریٹری اسمبلی کے مطابق سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکوں پر ووٹنگ آئینی طور پر 7 دن کے بعد کرائی جاسکتی ہے لہذا اس معاملہ پر ابھی کوئی حتمی تاریخ نہیں دی جا سکتی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ معاملہ جلدی حل ہونے کی توقع نہیں۔ فریقین اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں لہذا سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا معاملہ بھی اب عدالت تک جانے کا امکان ہے۔
لیکن ایوان میں عددی اعتبار سے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر کارروائی بارے بتایا گیا ہے کہ پہلے تحریک انصاف کی جانب سے تحریک عدم اعتماد ڈپٹی سپیکر دوست مزاری کے خلاف جمع کرائی گئی لہٰذا قانونی طور پر پہلے اس پر ووٹنگ ہوگی اور اس اجلاس کی صدارت سپیکر پرویز الٰہی کریں گے۔ لہٰذا 29 اپریل کو ایک اور ہنگامہ خیز اسمبلی سیشن کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
ڈپٹی سپیکر کے بعد سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوگی جس کی صدارت ڈپٹی سپیکر نہ ہونے کی صورت میں پینل آف چیئرمین کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ 16 اپریل کو ہونے والے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں پرویز الٰہی کے ساتھیوں نے ڈپٹی سپیکر پر حملہ کیا جس کے بعد پولیس ایوان میں داخل ہوئی اور پرویز الٰہی پر بھی مبینہ تشدد ہوا لہٰذا دونوں طرف تلخیاں عروج پر ہیں اور پنجاب تین ہفتوں سے بغیر کسی وزیر اعلیٰ کے چل رہا ہے۔ اس سیاسی کشیدگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پنجاب کے علامتی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے ابھی تک اپنے دفتر کا چارج نہیں چھوڑا۔ انکا کہنا ہے کہ آئینی طور پر وہ تب تک اسی دفتر میں رہیں گے جب تک نیا وزیر اعلیٰ حلف لینے کے بعد چارج سنبھال نہیں لیتا۔ وزیر اعلیٰ آفس کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یکم اپریل کو وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار نے استعفیٰ دیا تو اس کے بعد انہوں نے کسی بھی فائل پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ وزیر اعلیٰ آفس آنے والی فائلوں کو واپس ان کے محکموں میں بھجوا دیا گیا ہے۔ جو فائلیں وزیر اعلیٰ کی میز پر بھی پہنچ گئی تھیں ان پر بھی انہوں نے دستخط نہیں کیے۔‘
آئینی ماہرین کے مطابق پاکستان کے کسی بھی صوبے میں پیدا ہونے والی یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہے، اور بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ اس کا فیصلہ بھی اب عدالت ہی کرے گی۔ دوسری طرف وفاقی حکومت نے سیکریٹری ٹو وزیر اعلیٰ کو تبدیل کردیا ہے جبکہ سیکریٹری ٹو گورنر پنجاب نے ایک خط کے ذریعے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو خبردار کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد حلف میں رکاوٹ کھڑی کرنا ایک غیر آئینی عمل ہے۔