23 اکتوبر تک یحیی آفریدی کی بطور چیف جسٹس تقرری کا امکان

بالآخر اتحادی حکومت کی جانب سے عدالتی ترامیم کا آئینی پیکج منظور کیے جانے کے بعد جسٹس منصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کا امکان ختم ہو گیا ہے۔ آئینی ترمیم کے بعد تشکیل دی جانے والی 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی ممکنہ طور پر سینیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر موجود جسٹس یحیی آفریدی کو 23 اکتوبر تک نیا چیف جسٹس آف پاکستان تعینات کرنے جا رہی ہے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے ججز کی سینیارٹی لسٹ میں پہلے نمبر پر جسٹس منصور علی شاہ موجود ہیں جب کہ دوسرے نمبر پر جسٹس منیب اختر کا نام ہے، تاہم ان میں سے کسی کے چیف جسٹس بننے کا امکان اس لیے نہیں کہ یہ کھل کر حکومت کے مخالف اور عمران خان کی تحریک انصاف کے حمایتی ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم سینیٹ اور قومی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت کیساتھ منظور کروائی گئی ہیں۔ اس کے لیے حکومت کو سینٹ میں 64 ووٹوں کی ضرورت تھی جب کہ اس نے 65 ووٹ حاصل کیے جب کہ قومی اسمبلی میں اسے 224 ووٹوں کی ضرورت تھی جبکہ اس نے 225 ووٹ حاصل کیے۔ دونوں ایوانوں سے ترامیم کی منظوری کے بعد صدر زرداری نے وزیر اعظم کی شہباز شریف کی جانب سے بھیجی سمری ہر دستخط کر دیے ہیں۔ یوں ترامیم کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔

آئینی ترمیم کے تحت اب نئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کا تقرر ماضی کی طرح سنیارٹی کی بنیاد پر نہیں کیا جائے گا بلکہ یہ کام اب ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا۔  کمیٹی کی سفارش پر اب وزیراعظم نئے چیف جسٹس کا نام صدر کو ارسال کریں گے۔ کسی جج کی جانب سے بطور چیف جسٹس نامزدگی قبول کرنے سے انکار کی صورت میں اگلے سینیئر ترین جج کو اس عہدے کے لیے نامزد کیا جائے گا۔ چیف جسٹس کے تقرر کے لیے 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنے گی۔

پنجاب میں پی ٹی آئی یوتھیوں کو سڑکوں پر لانے میں مسلسل ناکام

آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد پہلے کا تقرر موجودہ چیف جسٹس فائز عیسی کی ریٹائرمنٹ سے تین دن قبل نام بھجوایا جائے گا۔ لیکن آئینی برسوں میں چیف جسٹس کے تقرر کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 14 روز قبل نام بھجوائے گی۔

12 رکنی خصوصی کمیٹی میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔ اس کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی سے جب کہ چار ارکان سینیٹ سے ہوں گے۔ آئینی ترامیم کے تحت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی مدت تین سال ہوگی اور اس کی عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ اور صوبوں میں قائم ہائی کورٹس میں آئینی بینچ تشکیل دیے جائیں گے۔

آئین کی شق 16 میں بھی ترمیم کی گئی ہے۔ اب اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئینی کیسز سے متعلق بینچوں کی تشکیل کے لیے مجلس قومی اسمبلی سے قرارداد منظور کرانا ہوگی۔ اسی طرح صوبائی ہائی کورٹس میں آئینی بینچوں کی تشکیل کے لیے صوبائی اسمبلیاں قرارداد منظور کریں گی۔ جوڈیشل کمیشن آئینی بینچوں اور ججوں کی تعداد کا تعین کرے گا۔ کسی بھی آئینی بینچ میں شامل سینئر ترین جج اس آئینی بینچ کا سربراہ ہو گا۔ آئینی بینچوں میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججوں کو تعینات کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار صرف آئینی بینچوں کے پاس ہوگا۔ آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیس آئینی بینچوں کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔ آرٹیکل 186 کے تحت عدالت کے ایڈوائزری اختیارات بھی آئینی بینچوں کے پاس ہوں گے۔

آرٹیکل 184 تین کے تحت سپریم کورٹ اپنے طور پر کوئی ہدایت یا ڈیکلریشن نہیں دے سکتی۔ آرٹیکل 186-اے کے تحت سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے۔ جوڈیشل کمیشن ہائی کورٹ کے ججوں کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لے گا۔ سپریم کورٹ کے ججوں کا تقرر کمیشن کرے گا۔ چیف جسٹس کی زیرِ صدارت کمیشن میں آئینی بینچوں کا سینئر ترین جج بھی شامل ہوگا۔ کمیشن میں سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین جج شامل ہوں گے۔ وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل بھی کمیشن کے ارکان ہوں گے۔

کم سے کم 15 سال تجربے کا حامل پاکستان بار کونسل کا نامزد کردہ وکیل دو سال کے لیے کمیشن کا رکن ہوگا۔ دو ارکان قومی اسمبلی اور دو ارکان سینٹ کمیشن کا حصہ ہوں گے۔ سینیٹ میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت کی حامل خاتون یا غیر مسلم کو بھی دو سال کے لیے کمیشن کا رکن بنایا جائے گا۔ آئینی ترمیم بینکنگ نظام میں آنے والے تین برس میں سود ختم کرنے کی ترمیم بھی منظور کی گئی ہے۔ آرٹیکل 38 میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت یکم جنوری 2028 تک سود کا خاتمہ کیا جائے گا۔

آئینی ترمیم میں آرٹیکل 48 بھی شامل ہے جس میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت وزیرِ اعظم یا کابینہ کی جانب سے صدر کو ارسال کی گئی تجویز پر کوئی عدالت، ٹریبیونل یا اتھارٹی سوال نہیں اٹھا سکتی۔ چیف الیکشن کمشنر یا رکن ریٹائرمنٹ کے بعد نئے تقرر تک کام جاری رکھے گا۔

آرٹیکل 229 اور 230 میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں میں ہونے والی قانون سازی پر اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے لی جا سکے گی۔ کوئی بھی معاملہ 25 فی صد ارکان کی حمایت سے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا جا سکے گا۔

Back to top button