کیاپاکستان سے افغان طالبان کو نکیل ڈالنے کا مطالبہ جائز ہے؟


بیس برس افغان طالبان کے ساتھ برسرپیکار رہنے والا امریکہ خود تو شکست کھانے کے بعد امن معاہدے کی آڑ میں افغانستان سے نکل رہا ہے لیکن پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کرتے ہوئے افغان طالبان کو نکیل ڈالنے پر اصرار کر رہا ہے۔ لہذا ناقدین کہتے ہیں کہ پاکستان سے افغان طالبان کو نکیل ڈالنے کا مطالبہ کرنے والوں کو پہلے تو یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ جب امریکہ کی موجودگی میں افغان حکومت اور اس کی فورسز طالبان کو قابو نہ کر سکیں تو یہ کام پاکستان کیسے کر سکتا ہے جبکہ امریکہ کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد طالبان اور بھی تگڑے اور خودسر ہو چکے ہیں۔
یاد رہے کہ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلا مکمل ہونے سے پہلے ہی افغان طالبان تیزی سے ملک کے مختلف حصوں پر قابض ہورہے ہیں اور اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا کے فورا بعد طالبان افغانستان کے بیشتر حصے پر قابض ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
دوسری جانب نائن الیون کے حملوں کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کا عزم لے کر اپنے پچاس سے زائد اتحادی ممالک کے ساتھ افغانستان پر چڑھائی کرنے والے امریکہ کو کوئی پرواہ نہیں کہ وہ جا رہا ہے اور مستقبل کا افغانستان ماضی کے افغانستان سے بہت زیادہ غیر محفوظ ہو ہو سکتا ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ امریکہ نے طالبان کے ساتھ نام نہاد امن معاہدہ کر کے بیس سالہ طویل جنگ میں اپنی شکست پر پردہ تو ڈال لیاہے لیکن اس نے اپنے ہاتھوں سے تشکیل شدہ کمزور ترین افغان حکومت کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے جس کے بعد افغانستان پر طالبان کا قبضہ یقینی لگتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں افغانستان کے اندر وارلارڈز کی دوبارہ تشکیل واضح ثبوت ہے کہ وہاں مستقبل قریب میں استحکام کی کوئی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ افغانستان میں بدلتی صورتحال سے ایک بار پھر سب سے زیادہ پاکستان کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے جہاں اقتدار کے ایوانوں اور پارلیمان تک میں نئی افغان صورتحال اور اسکے منفی اثرات سے پاکستان کو بچانے کے معاملات زیربحث ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر امریکی فوجی انخلاء کے بعد افغانستان پر طالبان قابض ہو جاتے ہیں تو یہ پاکستان کے لیے بھی کوئی اچھی خبر نہیں ہو گی کیونکہ ایسا ہونے سے پاکستانی طالبان بھی تگڑے ہو کر وطن واپس لوٹ آئیں گے اور دوبارہ دہشت گردی شروع کر دیں گے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اب افغان طالبان بہت زیادہ آزاد ہو چکے ہیں اور پاکستان کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ اس لئے یہ امید کرنا کہ پاکستان ڈو مور مطالبے کے تحت افغان طالبان کو نکیل ڈال سکتا ہے، سراسر ذیادتی اور خود کو دھوکہ دینے کے مترادف یے۔
یاد رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے حکم پر افغانستان میں قائم بگرام اڈے کو خالی کیے جانے کے بعد اب اس کا قبضہ تو افغان فوج کے پاس آ گیا ہے لیکن اسے افغان طالبان اور مقامی لٹیروں کی جانب سے خطرات لاحق ہو گے ہیں۔ جہاں ایک جانب افغان طالبان اس اہم ترین فوجی اڈے پر قبضے کی تیاریوں میں مصروف ہیں تو وہیں دوسری جانب مقامی لٹیرے بھی یہاں موجود سامان لوٹنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ افغانستان کا بگرام ایئربیس ہر لحاظ سے ایک سپر بیس ہے جہاں جدید ترین آلات اور بہت سی تنصیبات موجود ہیں جو کئی سال کے عرصے میں ایک شہر کی شکل اختیار کر چکی ہیں جن کا انتظام امریکی افواج افغان فوج کے حوالے کر کے جا چکی ہیں۔
یاد رہے کہ امریکی فوج نے گذشہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے میں اس فوجی اڈے کو اپنے گھر میں تبدیل کر دیا تھا۔ یہاں مواصلاتی نظام، مختلف سہولتیں، جدید ترین امریکی ٹیکنالوجی اور وہ سب کچھ موجود تھا جس کی ایک شہر کو ضرورت ہوتی ہے، دکانوں اور کیفے سے لے کر جیل اور سوئمنگ پولز تک، یہاں سب کچھ بنایا گیا تھا۔ بلگرام فوجی اڈے کا انتظام افغان فورسز کو منتقل ہوئے ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا کہ اب اس پر قبضے کی وارننگ آ گئی ہے۔ دو دہائیوں سے افغانستان میں سب سے بڑے بگرام ایئربیس خالی کرنے کی خبروں کے بعد متعدد مقامی لوگوں اور منشیات کے عادی افراد اڈے کو لوٹنے کے لیے پہنچ گئے تھے لیکن افغان سکیورٹی فورسز نے انہیں اسکحے کے زور پر روک دیا۔
خبر رساں اداے اے ایف پی کے مطابق ایک افغان عہدے دار نے کہا ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے ساتھ ہی لٹیرے اور منشیات کے عادی افراد کو خبر ملی تو وہ طالبان کی جانب سے اڈے کے اثاثے لوٹے جانے سے بھی پہلے اس کے دروازوں پر پہنچ گئے۔ بگرام بیس کی حفاظت پر مامور افغان فوجی نے بتایا کہ جب تک ہم یہاں ہیں، لوٹ مار کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم اپنے ملک کی حفاظت اور اس کا دفاع کریں گے۔‘
یاد رہے کہ امریکہ نے 11 ستمبر2001 کے حملوں کے بعد القاعدہ سے بدلہ لینے اور انتہاپسندوں اور ان کے اتحادیوں جیسا کہ طالبان، کو سزا دینے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ اس کے ابتدائی اقدامات میں دارالحکومت کے شمال میں 60 کلومیٹر دور بگرام کا کنٹرول حاصل کرنا تھا تاکہ اسے دہشت گرد گروپوں سے مقابلے کے لیے فوجی اور سکیورٹی کارروائیوں کا مرکز بنایا جا سکے۔ امریکہ کو 1950 کی دہائی سے بگرام کا علم ہے۔ اس نے 1950 میں افغان اتحادیوں کے لیے بگرام ایئرپورٹ تعمیر کیا تھا تاکہ اسے سرد جنگ کے دنوں میں سابق سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ لیکن تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔
سوویت یونین نے 1979 میں اڈے پر قبضہ کر لیا تاکہ اسے اپنی کارروائیوں کے لیے استعمال کر سکے۔1990 میں سرخ فوج کے انخلا کے ساتھ ہی بگرام کا ہوائی اڈا خانہ جنگی کا گڑھ بن گیا اور بالآخر طالبان کے قبضے میں آ گیا، تاہم امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اڈے پر بمباری کی اور طابان سے فوجی اڈوں کا کنٹرول واپس لے لیا جن میں بگرام بھی شامل تھا۔
کچھ سال پہلے تک بگرام میں ایک لاکھ سے زیادہ امریکی فوجی موجود تھے۔ امریکی صدور اور سینیئر افغان حکام بھی اڈے کا دورہ کر چکے ہیں۔جو بائیڈن واحد امریکی صدر ہیں جنہوں نے 2001 کے بعد سے بگرام اڈا نہیں دیکھا حالانکہ زیادہ تر افغان جنگ اسی اڈے سے لڑی گئی۔ بائیڈن کے حکم پر اب تمام امریکی فوجی اڈے سے جا چکے ہیں اور اس کا انتظام افغان فوج کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ لیکن اب اڈے اور اس میں موجود سامان کو کئی خطرات لاحق ہیں۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں لکھا ہے کہ ہم بگرام سے امریکی فوج کے انخلا کو ایک اچھا قدم سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان طالبان افغانستان کے تمام حصوں سے غیر ملکی افواج کا انخلا چاہتے ہیں، جو امریکہ اور افغانستان دونوں کے عوام کے مفاد میں ہے۔ افغان طالبان نے اس امید کا اظہار بھی کیا ہے کہ ماضی کی طرح ایک بار پھر وہ بلگرام ائربیس اپنے قبضے میں لے لیں گے۔

Back to top button