تحریک لبیک سے اشتراک پر تحریک انصاف میں تقسیم


حکمران جماعت تحریک انصاف میں تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ممکنہ سیاسی اشتراک کے معاملے پر اختلافات پیدا ہونے کے بعد اب دو دھڑے بن گئے ہیں اور پارٹی قیادت بھی کنفیوژن کا شکار ہو چکی ہے۔ سیالکوٹ میں سری لنکن مینجر کے بہیمانہ قتل میں لبیک کے وابستگان کے ملوث ہونے کی اطلاعات کے بعد ٹی ایل پی سے سیاسی اشتراک کو تحریک انصاف اور ملک کے لئے زہر قاتل قرار دیا جا رہا ہے۔
تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اعجاز چوہدری اور ان کے دیگر ہم خیال ساتھی سمجھتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں پنجاب میں مسلم لیگ نون کو ہرانے کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی طرح تحریک لبیک کے ساتھ الائنس بنایا جائے تاہم دوسری جانب فواد چوہدری اور انکے دیگر ہم نواؤں کا خیال ہے کہ اگر تحریک انصاف نے تحریک لبیک کے ساتھ کسی قسم کا انتخابی اشتراک کیا تو اس سے پارٹی کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو جائے گی کیونکہ سیالکوٹ واقعے میں ٹی ایل پی والوں کا ہاتھ ہونے کی وجہ سے لبیک کے ساتھ اتحاد بنانا پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل کے لیے تباہ کن ہوگا اور ویسے بھی اس اقدام سے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں وزیراطلاعات فواد چوہدری نے تحریک انصاف کے سینیٹر اعجاز چوہدری کو علامہ سعد رضوی کی رہائی کے بعد ان سے کی جانے والی ملاقات اور پھول پیش کرنے کے عمل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ فواد چوہدری نے یہ بات ‘آج نیوز کے پروگرام روبرو’ میں توہین مذہب کے الزامات پر سیالکوٹ میں سری لنکن فیکٹری مینیجر پریانتھا کمارا کے قتل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے سیالکوٹ واقعے کو ٹی ایل پی سے جوڑا گیا تھا لیکن تحریک لبیک نے اس واقعے سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے گھناؤنے واقعے کی مذمت کی تھی۔ پروگرام کے دوران سینیٹر اعجاز چوہدری کی تحریک لبیک کے سربراہ سے ملاقات کے حوالے سے سوال پر فواد چوہدری نے اس عمل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں اعجاز چوہدری کی ٹی ایل پی قیادت سے ملاقات ایک بیہودہ حرکت تھی، انہوں نے سوال کیا کی چودہری صاحب نے شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے گھروں کا دورہ کیوں نہیں کیا؟۔
یاد رہے کہ سینیٹر اعجاز نے گزشتہ ماہ ٹی ایل پی کے سربراہ رضوی سے ‘جذبہ خیر سگالی’ کے طور پر ملاقات کی تھی اور انہیں جیل سے رہائی پر مبارکباد دی تھی، اعجاز کے گلے ملنے اور سعد رضوی کو گلدستہ پیش کرنے کی تصاویر سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی تھیں۔ یہ ملاقات ٹی ایل پی اور وفاقی حکومت کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار اور دو ہفتوں تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد 31 اکتوبر 2021 کو ایک معاہدے پر پہنچنے کے بعد ہوئی تھی جہاں اس سے قبل ٹی ایل پی کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں سات پولیس اہلکار اور ٹی ایل پی کے متعدد کارکن جاح بحق ہو گئے تھے۔ تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان معاہدے کو خفیہ رکھا گیا تھا لیکن افشا ہونے والی معلومات کے مطابق حکومت نے پارٹی کو کالعدم تنظیموں کی فہرست سے نکالنے، سعد رضوی کی رہائی اور انسداد دہشت گردی سمیت مختلف الزامات کے تحت گرفتار ٹی ایل پی کے کارکنوں کو رہا کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس معاہدے کے ایک ہفتے بعد 7 نومبر کو وفاقی کابینہ نے ٹی ایل پی کو ملک کے انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت ‘ممنوعہ’ تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا تھا۔
فواد چوہدری نے ٹی ایل پی کے پرتشدد مظاہروں سے پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے کے حوالے سے اپنی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ریاست اپنے شہدا کو اپناتی نہیں ہے تو پھر کل ان کے ساتھ کون کھڑا ہو گا۔ یاد رہے کہ لبرل سمجھے جانے والے فواد کو تحریک لبیک اور تحریک انصاف کے الیکشن الائسنس کی خبریں ہضم نہیں ہو پا رہیں چنانچہ انہوں نے لبیک سے حکومتی معاہدے اور وزیراعظم عمران خان کی احتیاط برتنے کی ہدایات کے باوجود پچھلے دنوں اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ’مذہبی انتہا پسند گروہوں کے پاس ہجوم کے زور پر تشدد کرنے کی صلاحیت تو ہوتی ہے لیکن انکی سیاسی صلاحیتیں ہمیشہ محدود رہی ہیں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک وقت تھا جب سنی تحریک ٹی ایل پی سے زیادہ پرتشدد تھی لیکن اب اس کے پاس وہ طاقت نہیں۔ فواد چوہدری نے کہا کہ یہ جماعت یعنی تحریک لبیک بھی جلد ختم ہوجائے گی اور اس سے کاسی قسم کا الیکشن اتحاد ملک کے بین الاقوامی تنہائی کا باعث بنے گا۔ انہی دنوں جب اپنی ہی جماعت سینیٹر اعجاز چوہدری نے تحریک لبیک اور تحریک انصاف کے مابین اگلے الیکشن میں انتخابی اتحاد کے امکان کا اظہار کیا تو تب بھی فواد چوہدری سے نہیں رہا گیا اور انہوں نے ایک ٹی ایل پی مخالف ٹویٹ ڈال دی تھی ۔ فواد کا پرائیویٹ محفلوں میں بھی یہی موقف ہے کہ اگلے عام الیکشن میں تحریک لبیک کے ساتھ انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے بڑا کوئی بلنڈر نہیں ہو سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: حکمران آنکھیں کھولیں، ملک کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے
سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ تحریک انصاف میں پہلے سے ہی کئی دھڑے موجود ہیں لیکن آئندہ عام انتخابات میں تحریک لبیک کے ساتھ پنجاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا کسی بھی قسم کے انتخابی اشتراک سے متعلق سوال پر پارتٰ مزید تقسیم کا شکار ہوگی۔ اگر واقعی تحریک انصاف نے لبیک والوں کے ساتھ ہاتھ ملا لئے تو یہ نہ صرف پارٹی بلکہ ملک وقوم کے لئے بھی بھیانک تجربہ ثابت ہوگا۔

Back to top button