گندم کی امدادی قیمت 1650 روپے مقرر

شبلی فراز نے کہا ہے کہ حکومت نے گندم کی امدادی قیمت فی من 1650 روپے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے اسلام آباد میں کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ گندم کی امدادی قیمت 1650 روپے ہوگی، انہوں نے کہا کہ ہم عوام اور کسان دونوں کا خیال رکھنا ہے تاکہ عوام کو مہنگا آٹا نہ ملے اور کسانوں کو بھی مناسب قیمت ملنی چاہیے کیونکہ وہ اپنے خون پسینے کی محنت سے کمائی کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسانوں کے لیے 100 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے جس سے ان کی بنیادی قیمت کم ہوگی جس سے کسان بھی خوش ہوں گے اور عوام بھی خوش ہوں گے۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ آتے کی قیمت میں اضافہ اور بحران میں سندھ کا طریقہ کار بڑا غلط تھا کیونکہ انہوں نے اپنے عوام کو مجبور کیا کہ وہ مہنگا آٹا خریدیں اور اس سے دیگر صوبوں میں بھی محسوس کیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ نے گندم بھی جاری نہیں کیا جس سے کمی ہوئی اور امدادی قیمت بھی اپنی مرضی رکھتے ہیں حالانکہ پچھلے سال انہوں نے ایک دانہ نہیں خریدا لیکن وفاق نے پاسکو سے ان کو 7 لاکھ ٹن کے قریب گندم دیا۔ شبلی فراز نے کہا کہ سندھ اب بھی معیار کے مطابق گندم جاری نہیں کررہا ہے، اس سے قیمتوں میں فرق پڑا اور گندم پیدا کرنے والا بڑا صوبہ پنجاب میں کم قیمت پر آٹا مل رہا تھا جس سے رسد میں مسائل آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ہم سمجھتے ہیں کہ اس قیمت سے دونوں کے لیے اچھا ہوگا اور حکومت کی کوشش ہے کہ آٹے کی قیمت میں اضافہ نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت عالمی مارکیٹ میں گندم کی قیمت بلند سطح پر ہے جبکہ حکومت سندھ جو قیمت دے رہی وہ عالمی قیمت سے بھی زیادہ ہے۔ کابینہ اجلاس میں زیر بحث آنے والے موضوعات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سبسڈیز پر بھی بات ہوئی، اس ملک میں گزشتہ 50 برسوں سے بدقسمتی سے کوئی ایسے اقدامات نہیں کیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں حکومت کا معاشی ڈھانچے اور ادارے جس طرح بنانے چاہیے تھے اس طرح نہیں کیا گیا اور صرف آج کا خیال رکھا گیا اور کل کے بارے میں آنے والی حکومت جانے گی، اس حکمت عملی نے ہمارے ملک کو نقصان پہنچایا، جس میں سبسڈیز بھی ہیں۔ شبلی فراز نے کہا کہ ہمارے سرمایے اور اخراجات کو دیکھیں تو نظر آئے گا کہ ہم قرض اور اس کا سود ادا کریں تو وہ اسی کو پورا کرے گا جبکہ دفاع اور حکومت چلانے سمیت جو بھی کام ہو رہا ہے وہ قرض پر ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سبسڈیز سے فائدہ حاصل کرنے والوں میں کسی نہ کسی طرح سب شامل ہوتے ہیں، کروڑ پتی شخص کو بھی گندم، بجلی، گیس اور دیگر چیزوں پر وہی سبسڈی مل رہی ہے جو ایک غریب آدمی کو بھی وہی ملتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سبسڈی ان لوگوں کو ملنی چاہئیں جن کا حق بنتا ہے، سبسڈیز تو غریب اور متوسط طبقے کو ملنی چاہئیں اور اس حوالے سے معاون خصوصی برائے خزانہ کو ذمہ داری دی گئی ہے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جو اعداد وشمار ہم نے دیکھے، اس سے پوری کابینہ کو تعجب بھی ہوا کیونکہ 4 کھرب سے زائد سبسڈیز دی جارہی ہیں اور اس قسم کی سبسڈیز کی تقسیم کے لیے طریقہ کار بنایا جائے تاکہ حق دار تک پہنچیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پر سنجیدگی سے کام شروع کیا گیا ہے اور اس کے لیے احساس اور دیگر دستاویزات استعمال کررہے ہیں اور اسی کی بنیاد پر اپنی حکمت عملی بنائیں گے۔