آئین شکنی پر صدرعارف علوی کے مواخذے کا فیصلہ


شہباز شریف کی زیر قیادت نئی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے دست راست عارف علوی کے خلاف غیر آئینی طریقے سے قومی اسمبلی توڑنے کی بنیاد پر مواخذے کی تحریک لائی جائے گی، تاہم اس حوالے سے مناسب وقت کا فیصلہ حکومتی اتحادی جماعتیں باہمی مشاورت سے کریں گی۔
آئین کے مطابق صدر کو جن بنیادوں پر ان کے عہدے سے برطرف کیا جاسکتا ہے ان میں جسمانی یا دماغی نااہلیت اور دستور کی خلاف ورزی یا فاش غلط روی کے الزامات شامل ہیں۔ چونکہ سپریم کورٹ نے صدر عارف علوی کی جانب سے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے اور نگران حکومت کے قیام کے لئے کئے جانے والے تمام تر اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا تھا اس لئے اسی فیصلے کو انکے خلاف مواخذے کی بنیاد بنایا جائے گا اور دستور کی خلاف ورزی کے الزام پر کارروائی کی جائے گی۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد وہ اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس نہیں بھیج سکتے اسی طرح صدر بھی اپنے آئینی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتے تھے تاہم انہوں نے عمران خان کے غیر آئینی منصوبے کا حصہ بنتے ہوئے یہ کام کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر علوی کے پاس آئین کے آرٹیکل 47 کے تحت مواخذے سے بچنے کے لئے واحد راستہ استعفی ہے لیکن ابھی عمران خان نے انہیں اس عہدے سے چمٹے رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ یاد رہے کی کراچی سے تعلق رکھنے والے دانتوں کے ڈاکٹر، عارف علوی نے 9 ستمبر 2019 کو صدر پاکستان کا حلف اٹھایا تھا۔ آئین کے تحت صدر کے عہدے کی مدت 5 سال ہے، لیکن آئین کے آرٹیکل 47 کے تحت سینیٹ یا قومی اسمبلی کی کل رکنیت کے کم از کم نصف ارکان اسپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کو صدر کی برطرفی یا مواخذے کے لیے تحریری نوٹس دے سکتے ہیں۔ ایسے نوٹس میں صدر کے خلاف الزام کی وضاحت دینا ہوتی یے۔ سپیکر مواخذے کا نوٹس موصول ہونے کے بعد کم از کم 7 دن کے بعد اور 14 دن سے پہلے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس طلب کرے گا۔
پارلیمینٹ کا مشترکہ اجلاس اس الزام کی تفتیش کرا سکتا ہے جس کی بنیاد پر اجلاس طلب کیا گیا ہو۔
صدر کے خلاف جمع کروائی گئی تحریک پر تفتیش اور غورو خوض کے نتیجے میں دونوں ایوانوں کی کل رکنیت کے کم از کم دو تہائی ووٹ اس قرارداد کی منظوری کے حق میں پڑ جائیں تو صدر عہدہ سنبھالنے کا اہل نہیں رہتا۔ یوں صدر پارلیمان میں یہ قرارداد منظور ہونے کے بعد فوری طور پر اپنا عہدہ چھوڑ دیتا یے۔ آئین کے آرٹیکل 46 کی شق 3 کے تحت صدر قومی اسمبلی کے اسپیکر کے نام اپنی دستخط شدہ تحریر کے ذریعے عہدے سے مستعفی ہو سکتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ پاکستان میں آج تک کسی صدر کو مواخذے کینتحریک کے ذریعے تبدیل نہیں کیا گیا۔ جب 2008 کے الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی نے وفاق میں اقتدار سنبھالا تھا تو تب کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف مواخذے کی تحریک دائر کی گئی تھی، لیکن مشرف نے ذلت سے بچنے کے لیے اس تحریک کا سامنا کرنے سے پہلے ہی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد آصف علی زرداری نئے صدر بن گئے تھے۔ اب بھی اس امکان کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ عارف علوی کی صدارت سے فراغت کے بعد آصف علی زرداری ہی ملک کے اگلے صدر ہوں گے۔

Back to top button