9 اپریل کی رات کو عدالتی دروازے کیوں کھولے گئے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 9 اور 10 اپریل کی رات ہنگامی بنیادوں پر عدالت کھولنے پر تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ قانون کے مطابق پاکستان کی آئینی عدالتوں، یعنی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج اپنی آئینی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے کسی مخصوص وقت یا جگہ کے پابند نہیں ہوتے۔ اعلیٰ عدلیہ چونکہ آئین کی محافظ تصور ہوتی ہے اور آئین میں شہریوں کو دیے گئے بنیادی حقوق کا ریاست کے ہر ادارے پر نفاذ انہی کا اولین فریضہ ہے، اسی لیے اس رات بھی عدالت کے دروازے کھول دیئے گئے۔
یاد رہے کہ تب سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد کی تقدیر کا فیصلہ ہونا باقی تھا اور یہ افواہیں پھیل رہی تھیں کہ عمران خان ’آخری گیند تک کھیلنے‘ کی اپنی کوشش میں آرمی چیف کو ڈی نوٹیفائی کر سکتے ہیں۔ اپنی اس کوشش کے دوران سابق وزیراعظم نے وزارت دفاع سے بھی رابطہ کیا لیکن کوئی جواب نہ ملنے پایا۔ یہ خبر باہر آنے کے فوری بعد رات گے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ عدالت عمران خان کو جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف کے عہدے سے ڈی نوٹیفائی کرنے سے روکے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایک اور درخواست میں عدالت سے آئینی بحران کو ٹالنے اور سپریم کورٹ کے 7 اپریل کے حکم پر عمل درآمد کروانے کی استدعا کی گئی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 12 اپریل کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ 9 اپریل 2022 کو رات گئے پٹیشنز کی فائلنگ کو غلط طریقے سے رپورٹ کیا گیا ہے اور سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ کیا طے شدہ عدالتی اوقات کے بعد درخواستیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اپنے بیان میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 11 نومبر 2019 اور 10 فروری 2021 کو جاری کیے گئے دو سرکلرز کا حوالہ دیا جس میں ’عدالتی وقت کے بعد درخواستوں کو پیش کرنے کا طریقہ‘ بتایا گیا تھا۔ ان سرکلرز کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ نے مطلع کیا تھا کہ کسی شہری کی جان یا آزادی یا کسی اور اہم معاملے کو لاحق خطرے کی صورت میں عدالت کا رجسٹرار آفس درخواست وصول کر سکتا ہے اور عدالتی اوقات کار کے بعد بھی اسے چیف جسٹس تک پہنچا سکتا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ ایک آئینی عدالت کے طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ انتہائی ہنگامی نوعیت اور اہمیت کے حامل مقدمات کو طے شدہ اوقات کے بعد بھی کسی بھی وقت پیش کیا جائے اور معزز چیف جسٹس اگر سمجھتے ہوں کہ معاملہ انتہائی ہنگامی نوعیت کا ہے، تو وہ کسی بھی وقت کیس لگانے کا حکم دے سکتے ہیں۔
9 اپریل کے واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نے عدالت سے رجوع کیا اور آئین کے آرٹیکل 187 کے تحت درخواست دائر کرنے کے بارے میں استفسار کیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے بیان میں ان درخواستوں کا حوالہ بھی دیا گیا جن میں ایک پیشگی آئینی پٹیشن میں استدعا کی گئی تھی کہ وزیر اعظم کو آرمی چیف کو ڈی نوٹیفائی کرنے سے روکا جائے۔ اس دوران کچھ اور درخواستیں پیش کی گئیں جنہیں معزز چیف جسٹس کی رہائش گاہ پر پہنچا دیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ لہٰذا واضح ہوا کہ مذکورہ بالا سرکلرز کی روشنی میں انتہائی ہنگامی نوعیت سے متعلق ایک درخواست عدالت کے طے شدہ اوقات کے بعد کسی بھی وقت پیش کی جا سکتی تھی اور اگر چیف جسٹس مطمئن تھے کہ ایسے حالات موجود ہیں تو درخواست کو سماعت کے لیے بھی مقرر کیا جا سکتا تھا۔ لہذا اس حوالے سے کی جانے والی تنقید غیر ضروری ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے یہ وضاحت سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے حامیوں کی جانب سے کی جانے والی تنقید کے بعد جاری کی گئی ہے۔ پی ٹی آئی والے سوشل میڈیا پر مسلسل یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ ہماری عدالتوں کے تالے آدھی رات کو کیسے کھل جاتے ہیں؟
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر سلطان راہی کی فلم کا حوالہ بھی دیا جارہا ہے جس وہ آدھی رات کو عدالت کی دیوار پھلانگتے پکڑے گئے۔ جب وجہ پوچھی گئی تو بولے، ’عدالت سے انصاف لینے آیا ہوں۔‘ انہیں بتایا گیا کہ عدالت تو دن کے وقت لگتی ہے۔ اس پر سلطان راہی نے جو ڈائیلاگ بولا وہ بہت مشہور ہوا تھا، اس نے کہا ’اوئے تھانےدارا! ظلم 24 گھنٹے ہوتا ہے اور انصاف صرف 12 گھنٹے، یہ کہاں کا قانون ہے؟‘
پاکستان میں حالیہ دستوری بحران کے دوران ہفتے کے روز تقریباً آدھی رات کو اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کھول دی گئیں۔ بہت سے لوگوں کے خیال میں یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا ایسا واقعہ ہے جس کی پہلے کوئی نظیر موجود نہیں اور بہت سے لوگوں کے نزدیک تو عدالتوں کا چھٹی کے دن کام کرنا چونکہ قانون میں موجود نہیں ہے، لہٰذا یہ بدنیتی پر مبنی ہے۔ لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ تاثر آئینی اور قانونی طور پر درست نہیں ہے اور ماضی میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں جب عدالتوں نے چھٹی کے دن بھی کام کیا۔
خیال رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی جیل میں شدید علالت کی خبریں سامنے آئیں تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے 26 اکتوبر کو ہفتے یعنی چھٹی کے روز عدالت لگا کر نواز شریف کو ضمانت دی تاکہ وہ جیل سے باہر نکل کر اپنا علاج کرا سکیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے ہفتے ہی کے دن عدالت لگا کر ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے حکم دیا۔ اسی طرح سے عدالت کسی ایک عمارت تک محدود نہیں ہے۔ 2007 میں جنرل مشرف کی طرف سے 3 نومبر کو ملک میں ایمرجنسی لگا کر بنیادی آئینی حقوق معطل کر دیے گئے اور ججز کو ان کی رہائش گاہوں تک محدود کر دیا گیا تو چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک سات رکنی بینچ نے ججز کالونی میں بیٹھ کر، عدالت آئے بغیر ہی شام کے وقت اس ایمرجنسی کے حکم نامے کو معطل کرنے کا حکم صادر کیا اور ملک بھر کے ججز کو نیا حلف لینے سے روک دیا گیا۔
بعد میں عدلیہ بحال ہوئی تو سپریم کورٹ نے اپنے اسی حکم نامے کی خلاف ورزی کی پاداش میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کئی درجن ججز کو برطرف کر دیا تھا۔ اس معاملے کی قانونی حیثیت یہ ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک کی طرح پاکستان اور بھارت میں عدالتیں کبھی بند نہیں ہوتیں، مگر یہ عدالتیں عدالتی اوقات کار کے علاوہ صرف عارضی اور فوری نوعیت کے معاملات ہی سنتی ہیں، اور ان ججز کو ’ڈیوٹی ججز‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ججز تعطیلات کے دوران، حتیٰ کہ عید کے دن بھی بطور ڈیوٹی ججز موجود ہوتے ہیں۔ اس کی مثال ’آن کال‘ ڈاکٹروں کی سی ہے، جو چھٹی کے وقت اپنے گھروں پر ہوتے ہیں لیکن ایمرجنسی کی صورت میں انہیں ہسپتال بلایا جا سکتا ہے۔
آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق پاکستان کی آئینی عدالتوں، یعنی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج اپنی آئینی ذمہ داری کے نفاذ کے لیے کسی جگہ یا مخصوص وقت کے پابند نہیں ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ چونکہ آئین کی محافظ تصور ہوتی ہے اور آئین میں شہریوں کو دیے گئے تمام بنیادی حقوق کا ریاست کے ہر ادارے پر نفاذ انہی کا اولین فریضہ ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کا احترام کیے جانے کے بھروسے پر ہی شہری اپنی شخصی آزادیاں ریاست کے سپرد کر دیتے ہیں۔ چنانچہ عدالتیں آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے وقت اور مخصوص جگہ کی پابند نہیں ہیں اور کسی شخص کی آزادی یا زندگی خطرے ہو یا ملک میں کوئی آئینی بحران سر اٹھا رہا ہو جس سے کاروبار مملکت معطل ہو سکتا ہو تو چاہے عدالت کی عمارت کو تالے بھی لگے ہوں، عدالت اپنا کام کر سکتی ہے۔ ایسی صورت حال میں جج اپنے ریٹائرنگ روم میں تو کیا، چھٹی کرکے گھر جاتے ہوئے گاڑی روک کر گاڑی کے بونٹ پر بھی کاغذات رکھ کر حکم جاری کر سکتا ہے اور یہ مکمل طور پر قانونی ہے، کیونکہ اس کے لیے ہی انہیں بنیادی شہری حقوق کے نفاذ اور ریاست کے آئینی ڈھانچے کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
لیکن یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ایسا صرف استشنائی صورتوں میں ہی ہو سکتا ہے اور عام حالات میں نظام انصاف کے بزنس آورز یعنی اوقات کار طے شدہ ہوتے ہیں۔